چند روز ہوتے ہیں جب یہ خوش گوار خبر آئی کہ پاکستان ساختہ جنگی طیارہ ایف 17 تھنڈر آذر بائیجان کی فضائیہ کا حصہ بن گیا ہے، تو 2015ء کی بہت سی خوش گوار یادیں تازہ ہو گئیں، نیز یہ بھی یاد آیا کہ آذر بائیجان کے صدر عزت مآب الہام علی ایو اس طیارے کی خوبیوں اور اہمیت سے میری آنکھوں کے سامنے متعارف ہوئے تھے۔ صدر ممنون حسین مرحوم و مغفور نے پاکستان میں تیار ہونے والے اس طیارے کا ذکر ان کے سامنے کیا تو میں نے میزبان صدر کی آنکھوں میں خوشی کی چمک اور چہرے پر مسرت کی لالی دیکھی۔
یہ بھی پڑھیں:مولانا مودودیؒ کا اصل کارنامہ
شہر میں مٹر گشت کرتے ہوئے کسی سنگ میل پر ایک نام نظر سے گزرا ’زگلبا‘۔ مایا یوں تو ہمارے سفیر خالد عثمان قیصر صاحب کی شاگرد تھی جو باکو اسٹیٹ یونیورسٹی میں اعزازی طور پر انٹرنیشنل ریلیشنز کا مضمون پڑھایا کرتی تھی۔ لیکن اب ہماری وہ راہ نما یعنی گائیڈ تھی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس خوب صورت سے لفظ کا مطلب کیا ہے؟ اس نے اپنی عادت کے مطابق نہایت نفیس لہجے میں جواب دیا کہ یہ ایک گاؤں ہے۔ ’بہترین‘ میرے اس جواب سے ایک مطمئن مسکراہٹ اس کے چہرے پر دوڑ گئی۔ لحظہ انتظار کے بعد میں نے پھر سوال کیا کہ اس لفظ کا مطلب کیا ہے؟ میرے ذہن میں ترکیہ کے شہر بردر کے قریب ایک گاؤں کا نام گونج رہا تھا ’گل حصار‘۔ اس محبوب دیس کے بارے میں کوئی تحریر پڑھتے ہوئے جب یہ نام میں نے پڑھا تو دیر تک جھومتا رہا کہ کیسا خوب صورت نام ہے۔ پھولوں کا حصار یا پھولوں کے گرد حصار۔ اس وقت تک اسلام آباد کے قریب ایک چھوٹے سے گاؤں کا نام میں نے نہیں سنا تھا، ’پُھل گراں‘ یعنی پھولوں والا گاؤں۔ خیر، میں نے اس سے یہ سوال کیا تو مجھے نکی کی یاد آ گئی جس سے امریکا کے ایک شہر سی ایٹل میں ملاقات ہوئی تھی۔ اس شہر میں ساحل کے قریب ایک خوب صورت سا بازار تھا جہاں سؤر کا مجسمہ نصب تھا۔ یہ بدنام جانور اس شہر کی علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جانے کیوں میں اس سے پوچھ بیٹھا کہ اس کا پس منظر کیا ہے؟ جواب میں اس نے ایک طویل تقریر کی جس کا مفہوم میں سمجھ سکا، نہ جاوید چودھری اور نہ عدنان شاہد مرحوم۔ خیر یہ بپتا پرانی ہے۔ مایا نے جو کچھ کہا، سمجھ تو اس کی بات بھی نہیں آئی لیکن اس میں ایک لفظ یعنی گل کی تکرار سے یہ سمجھ میں آ گیا کہ ضرور اس نام کا تعلق بھی کسی نہ کسی طرح پھولوں ہی سے ہے۔
یہ بھی پڑھیں:سعودی عرب: بار بار دیکھنے کی ہوس
ہمارے یہاں پشاور پھولوں کا شہر کہلاتا ہے اور لاہور باغوں کا، لیکن یہ ماضی کی بات ہے۔ باکو والے بھی پھولوں سے الفت رکھتے ہیں اور ہمارے طرح باغ باغیچوں کے علاوہ شہر کی گلیوں بازاروں میں اس خوبی کے ساتھ پھول لگاتے ہیں کہ پھولوں کے اپنے حسن کے علاوہ ان کی آرائش آنکھوں کے راستے دل میں اتر جاتی ہے۔ ان کے باغباں جیومیٹریکل شکلوں کی مدد سے ایسی کیاریاں بناتے ہیں جو دیکھتے ہی دل میں جگہ بنا لیتی ہیں۔ ایسا ہی ہم نے ملی پارک میں بھی دیکھا۔ ملی پارک جہاں ہماری رہائش تھی یعنی ہوٹل فور سیزنز کے قریب بحر گیلان یعنی کیسپیئن سی کے کنارے میلوں تک پھیلا ہوا ہے، جس میں حسن، محبت اور سکون دھیرے دھیرے اترتا ہوا مسافر کی یادوں کا مستقل حصہ بن جاتا ہے۔ دن بھر کی مصروفیات کے بعد تھکن اتارنے کے لیے ہم اسی باغ میں جا بیٹھتے۔ کچھ ٹہلتے، کچھ سستاتے اور کچھ اس کے پھولوں کے روزنوں سے کوہ قاف کے حسن کا نظارہ کرتے۔ کسی ایسی ہی مصروفیت کے دوران میں جگنو شاہ ایک روز کہنے لگے کہ کل ہم زگلبا پیلس جا رہے ہیں۔ یہ نام سنتے ہی میں نے چونک کر ان کی طرف دیکھا تو وہ مسکرائے اور کہا اتنے حیران کیوں ہوتے ہیں، سر! آپ کو یاد نہیں کہ کل ہمارا آفیشل ویلکم ہے اور وہیں صدر الہام علی ایو سے ہمارے مذاکرات ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:اسرائیل سے ملنے والی تازہ گواہی
باکو شہر نے ہمیں ویسے بھی خوش کیا تھا، اس خبر نے خوشی دوچند کر دی۔ ایک خوشی ایک خوب صورت نام کے جاننے کی، دوسری خوشی وہاں جانے کی جہاں ہمیں ایک اور خوشی بھی ملنے والی تھی۔ باکو شہر اپنی پاگل ہواؤں کے لیے معروف ہے۔ ہم پھولوں کے اشتیاق میں یہاں پہنچے تھے۔ ہمیں یہاں پھول تو ملے لیکن ان سے بڑھ کر ہواؤں سے پالا پڑا۔ یہ ہوائیں اتنی خنک تھیں کہ یہاں پہنچنے والا ہر مہمان بہ شمول میزبانوں کے سب کو اوور کوٹ پہننا پڑا اور پاگل اتنی تھیں کہ صدر ممنون حسین کے سرکاری استقبال اور پریڈ کے لیے پریڈ ایونیو کے ارد گرد مستولوں پر جو پھڑپھڑاتے ہوئے پرچم آویزاں تھے، وہ ان میں سے کبھی کسی ایک کو اڑا لے جاتی کبھی کسی دوسرے کو۔
استقبال اور پریڈ سے قبل گائیڈ ہمیں نہایت احترام کے ساتھ زگلبا پیلس کے لاؤنج میں لے گئے جہاں چند وزرا پہلے سے موجود تھے۔ انھوں خوش دلی کے ساتھ ہمارا خیر مقدم کیا اور اپنی طرح ہمیں بھی اوور کوٹ اتار کر کونے نصب کھونٹوں پر ٹانگنے کی ترغیب دی۔ بالکل فلموں میں سرد ملکوں کے بڑے بڑے ہوٹلوں اور محلات کے لاؤنج جیسے منظر کو ہم نے خوش گوار دل چسپی کے ساتھ دیکھا، پھر میزبان وزرا کے ساتھ بیٹھ کر آذربائیجانی چائے کے ساتھ ٹرکش ڈیلائٹ جیسی مٹھائی کا لطف اٹھایا۔ کچھ دیر کے بعد ہم مذاکرات کی میز پر تھے۔
یہ بھی پڑھیں:ایک عجب شہر کی مختلف خوشبو
دو طرفہ (bilateral) دوروں کے لیے متعلقہ ملکوں کی وزرات امور خارجہ بریف تیار کر کے اپنے ملک کے سربراہ کو پیش کرتی ہے جن کی مدد سے ان کے درمیان بات چیت ہوتی ہے۔ سربراہان مملکت و حکومت اس بریف کے مطابق اپنی بات نکتہ بہ نکتہ کہتے جاتے ہیں اور اسی طرح مخاطب راہ نما اس کا نکتہ بہ نکتہ جواب دیتے ہیں۔ ان مذاکرات کے بیشتر نکات پر متعلقہ ملکوں کے درمیان پہلے سے اتفاق رائے ہو چکا ہوتا ہے لیکن کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ مہمان اور میزبان ملک کے درمیان جس بات پر اتفاق نہیں ہوتا، اس کا تذکرہ بھی کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ بات یا مطالبہ جو فریق ثانی تک پہنچانا مطلوب ہے، پہنچ جائے۔ اس طرح کی باتوں پر جواب دینے کے بجائے عام طور پر خاموشی اختیار کر لی جاتی ہے، جواب دینے کی ضرورت محسوس نہیں جاتی۔ ایسے کئی مناظر مجھے اس سے قبل دیکھنے کا موقع مل چکا تھا جب کبھی میزبان یا مہمان کی حیثیت سے صدر ممنون حسین نے جواب نہیں دیا تھا اور کبھی میزبان شخصیت نے، لیکن یہ مذاکرات ان سب مذاکرات سے مختلف تھے جن میں ایجنڈے سے ہٹ کر بھی بات چیت نہ صرف ہوتی رہی بلکہ برسر موقع اتفاق رائے اور فیصلے بھی ہوتے رہے۔ ایسے معاملات میں ایک نمایاں معاملہ باکو میں نیشنل بینک کی برانچ کھولنے کا بھی تھا۔ پاکستان آذربائیجان تجارت میں مزید وسعت اور پاکستانی تاجروں کی سہولت کے لیے نیشنل بینک کی برانچ کھولنے کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے اتفاق رائے موجود تھا، لیکن برانچ کھل نہیں پا رہی تھی۔ اس میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان کے پاس ایکیویٹی کے لیے درکار رقم کی کمی تھی۔ مذاکرات کے خوش گوار ماحول کو دیکھ کر سفیر خالد عثمان قیصر صاحب نے صدر صاحب کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تو انھوں نے فوراً یہ بات صدر الہام علی ایو سے کہہ دی جس پر پہلے انھوں نے اپنی دائیں جانب بیٹھے وزیر خزانہ کو اس کی طرف متوجہ کیا، پھر مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ یہ مسئلہ حل ہوا، بے شک کل ہی یہاں اپنے بینک کی برانچ کھول لیجیے۔
یہ بھی پڑھیں:جب مشرف کے اعصاب چٹخے
ان مذاکرات میں میزبان ملک کی طرف سے پاکستان کو تیل اور گیس کی دریافت میں مدد دینے کی پیش کش کی گئی، تو پاکستان کی طرف سے زرعی پیداوار اور کپڑے سمیت بہت سی دیگر مصنوعات کی برآمد کے علاوہ یہ پیش کش بھی کی گئی کہ ہماری دفاعی مصنوعات عالمی منڈی کے مقابلے میں کم قیمت اور معیار میں ہم پلہ اور کہیں کہیں بہتری بھی رکھتی ہیں۔ اس سطح کے مذاکرات میں تفصیلات سے زیادہ اجمال پر توجہ دی جاتی ہے۔ باقی باتیں وزرا کی سطح پر اور ان سے پہلے بیوروکریسی اور ٹیکنوکریٹس کے درمیان طے پاتی ہیں، لیکن یہ دو برادر ملکوں کی قیادت کی بے تکلف محفل تھی جس میں بہت سی تفصیلات بھی زیر بحث آ گئیں جیسے یہاں نیشنل بینک کی مثال پیش کی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح پاکستان ساختہ جنگی طیارے کا ذکر بھی ہوا۔ صدر ممنون حسین نے طیارے کا تعارف کرایا اور صدر الہام علی ایو کی اس میں گہری دل چسپی دیکھ کر صدر صاحب کے دائیں جانب بیٹھے ہوئے ( اس وقت کے ) وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر حسین صاحب نے صدر ممنون حسین صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
‘ جناب صدر! اگر اجازت ہو تو اس بارے میں؛ میں بھی کچھ عرض کروں؟۔’ صدر صاحب نے بہ خوشی اجازت دے دی تو رانا صاحب نے نہایت سادگی کے ساتھ ایک ایک کر کے طیارے کی خوبیاں گنوائیں۔ میزبان صدر اور ان کے وفد نے یہ گفتگو نہایت توجہ سے سنی۔ مجھے کچھ ایسے یاد پڑتا ہے کہ صدر الہام علی ایو نے اس موقع پر دفاعی صنعت میں پاکستان کی مہارت اور محنت کی دل کھول کر داد دی اور یہ عندیہ بھی دیا کہ انھیں خوشی ہو گی کہ برادر ملک کا تیار کردہ اتنا شاندار طیارہ آذر بائیجان کے فلیٹ میں شامل ہو، پھر کہا کہ دونوں ملک بہت جلد اس معاملے کی تفصیلات پر بات کریں گے۔ اس سطح کی بات چیت میں بہت سی باتوں پر اتفاق رائے ہوتا ہے اور بہت سی باتیں محض اخلاقاً کہہ دی جاتی ہیں لیکن ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اگلی صبح ہی صدر مملکت سے آذر بائیجان کے وزیر دفاع اور چند دیگر وزرا کی ملاقات کا وقت طے ہوا اور شاید اسی سہ پہر یہ لوگ ملاقات کے لیے فورسیزنز پہنچ گئے۔ اس ملاقات کی تفصیلات طویل ہیں اور یہ بات تو کہنے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ ایجنڈے پر ایف 17 تھنڈر بہت اوپر تھا۔ صدر مملکت کے دورے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف آذربائیجان گئے تو بات مزید آگے بڑھی۔ اس کے بعد 2018ء کا ’انقلاب‘ آیا جس میں اس طرح کے سارے ’فضول‘ کام پس پشت ڈال دیے گئے۔ وہ دور بیتا تو حالات بھی بدلے۔ حال ہی میں صدر الہام علی ایو نے پاکستان کا دورہ کیا ہے جب کہ وزیراعظم شہباز شریف جو شان دار میزبانی کی روایت رکھتے ہیں، اس دورے میں معاملہ مزید آگے بڑھا۔ اس دوران میں فضائیہ کی ٹیکنیکل ٹیموں کے درمیان مسلسل رابطے رہے جن میں موجودہ ایئر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو سمیت کئی اہم ذمے داران کی محنت شامل ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایف 17 تھنڈر آذر بائیجان کی فضائیہ میں شامل ہو چکا ہے۔ اس خبر نے دلوں میں خوشی بھر دی ہے۔ صدر ممنون حسین بے جا نہیں کہا کرتے تھے کہ آذر بائیجان ہمارے لیے دوسرا ترکیہ ہے۔