آرٹیکل 63 اے جو پارلیمنٹ میں ہارس ٹریدنگ روکنے کے حوالے سے آئین کا ایک آرٹیکل ہے۔ اس کی تشریح کے بارے میں مئی 2022 کے فیصلے کے مصنف جسٹس منیب اختر ہیں اور عدالتی روایات کے مطابق جس بینچ نے اصل مقدمہ سنا ہو وہی اس پر نظرثانی اپیل سنتا ہے لیکن آج اس مقدمے کی نظر ثانی اپیل جو 2 سال بعد سماعت کے لیے مقرر ہوئی تو جسٹس منیب اختر نے بینچ میں بیٹھنے سے انکار کر دیا جس پر سماعت کل تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔
آرٹیکل 63 اے فیصلہ کیا ہے؟
آرٹیکل 63 اے کے مطابق پارلیمنٹ میں کسی آئینی ترمیم کے موقع پر اگر کوئی رکن پارلیمان اپنی پارٹی قیادت کی مرضی کے خلاف ووٹ ڈالتا ہے تو وہ بطور رکن پارلیمنٹ نااہل ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آرٹیکل 63 اے نظر ثانی کیس: جسٹس منیب اختر کا سپریم کورٹ کے لارجر بینچ میں شمولیت سے انکار
فروری 2022 میں سابق صدر عارف علوی نے سپریم کورٹ کو ایک ریفرنس بھیجا کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کی جائے جس پر اس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ پارٹی قیادت کے خلاف ووٹ ڈالنے والا رکن پارلیمنٹ نہ صرف نا اہل ہو جائے گا بلکہ اس کا ووٹ بھی شمار نہیں ہو گا۔ اس فیصلے پر معترضین کا کہنا ہے کہ اگر ووٹ شمار نہیں ہوگا تو نااہل کیسے ہو گا۔
جسٹس منیب اختر کے اعتراضات کیا ہیں؟
جسٹس منیب اختر جو سپریم کورٹ کی سینیارٹی لسٹ میں تیسرے نمبر پر ہیں انہوں نے بنیادی طور صدارتی آرڈینینس کے اجرا کے بعد سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے تشکیل نو پر اعتراضات اٹھائے اور یہ بھی کہا کہ مذکورہ کمیٹی آئین کے مطابق 3 رکنی ہونی چاہیے، 2 ججز بینچوں کی تشکیل نہیں کر سکتے۔ جس سے ان کا اشارہ جسٹس منصور علی شاہ کی کمیٹی اجلاسوں میں عدم شرکت سے ہے۔
مزید پڑھیے: پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی آرڈیننس پر عملدرآمد شروع، ججز کمیٹی میں جسٹس منیب کی جگہ جسٹس امین الدین شامل
اس ساری صورتحال میں یہ سوال اہم ہے کہ جسٹس منیب اختر جنہوں نے بینچ میں شمولیت سے معذرت بھی نہیں کی لیکن بینچ میں بیٹھنے سے انکار کیا ہے۔
کیا ایسی صورتحال میں بینچ ٹوٹ سکتا ہے اور کیا بینچ کی تشکیل نو ممکن ہے؟
ایڈووکیٹ حسن رضا پاشا
پاکستان بار کونسل ایگزیکٹو کمیٹی کے سابق چیئرمین حسن رضا پاشا نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بنیادی طور جسٹس منیب اختر اس معاملے کو طول دینا چاہتے ہیں تاکہ چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسٰی ریٹائر ہو جائیں اور ان کے بعد اس مقدمے کا فیصلہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ میری رائے میں تو پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی بینچ کی تشکیل نو کر سکتی ہے اور جسٹس منیب نے کمیٹی میں جسٹس منصور علی شاہ کی عدم شرکت پر جو سوال اٹھایا ہے وہ بھی مناسب نہیں کیونکہ 3 رکنی کمیٹی کا کورم 2 اراکین سے پورا ہو جاتا ہے اور اس کمیٹی میں بینچز کی تشکیل اور مقدمات کو سماعت کے لیے مقرر کرنے سے متعلق فیصلے 2 ایک کی اکثریت سے ہی کیے جاتے ہیں۔ تو اگر ایک جج نہیں بھی آتے تو کمیٹی کی قانونی حیثیت برقرار رہتی ہے۔
اکرام چوہدری
سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے وی نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر جسٹس منیب اختر نے طے کرتے ہیں کہ انہیں بینچ میں نہیں بیٹھنا تو بینچ ٹوٹ جائے گا اور اس کی تشکیل نو ممکن ہے۔
اکرام چہودری نے کہا کہ بنیادی طور پر چیف جسٹس نے پریکٹس اینڈ پروسیجر آرڈینینس کے ذریعے حاصل شدہ اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے جسٹس امین الدین خان کو کمیٹی میں شامل کیا جس پر جسٹس منیب اختر نے اعتراض اٹھایا ہے۔
مزید پڑھیں: آرٹیکل 63 اے، سپریم کورٹ میں اختلافات کا انجام کیا ہوگا؟
جب ان سے پوچھا گیا کہ کسی فیصلے کا مصنف اگر نظرثانی اپیل سنتا تو کیا صورتحال ہوتی ہے تو اکرام چوہدری ایڈووکیٹ نے کہا کہ ججز ریٹائرڈ ہو جاتے ہیں یا بینچ میں بیٹھنے کے لئے میسر نہیں ہوتے تو دوسرے جج صاحبان ان کی جگہ لیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جسٹس منیب اختر نے رجسٹرار کو جو خط لکھا ہے اس کو ریکارڈ کا حصہ بنانا ضروری ہے۔
بیرسٹر علی ظفر
قبل ازیں مقدمے کی سماعت کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ آج کے مقدمے میں ہم نے فیصلہ کیا تھا کہ بینچ کی تشکیل پر اعتراض اٹھائیں گے لیکن جسٹس منیب اختر نے فیصلہ کیا کہ وہ بینچ میں شامل نہیں ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کے حوالے سے فل کورٹ کو فیصلہ کرنا چاہیے اور اگر کل جسٹس منیب اختر صاحب بینچ میں نہیں بیٹھتے تو ہم پھر اعتراض اٹھائیں گے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ آج ایک طرح سے بینچ ختم ہو گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ رولز کے مطابق جس جج نے فیصلہ لکھا ہے اس کے بغیر سماعت نہیں ہو سکتی سوائے اس کے کہ فیصلہ لکھنے والا جج ریٹائر ہو چکا ہو یا وفات پا چکا ہو۔