روزگار کی غرض سے سعودی عرب جانے والے افراد میں سب سے بڑی تعداد پاکستانیوں کی ہوتی ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق وہاں غیر ملکی افرادی قوت کا نصف حصہ پاکستانی افراد پر مشتمل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت کا بیرون ملک جاکر بھیک مانگنے والے 2 ہزار سے زیادہ بھکاریوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیصلہ
پاکستان میں ماہانہ 25 فیصد زرمبادلہ سعودی عرب سے آتا ہے لیکن اس افرادی قوت کا مستقبل داؤ پر لگنے کے خطرات اس لیے منڈلانے لگ گئے ہیں کہ سعودی عرب میں بھیک مانگنے والوں میں بھی سب سے زیادہ تعداد پاکستانیوں کی بتائی جا رہی ہے۔
ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر اس مسئلے کو جلد از جلد حل نہ کیا گیا تو متحدہ عرب امارات کی طرح سعودی عرب کی جانب سے بھی پاکستانی افرادی قوت کو پابندیوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
اس حوالے سے وی نیوز سے گفتگو کے دوران وائس چیئرمین پاکستان اوور سیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز ایسوسی ایشن محمد عدنان پراچہ نے کہا کہ اس وقت ہم 8 سے 9 لاکھ ورک فورس دنیا بھر میں بھیج رہے ہیں جس میں سب سے زیادہ تعداد سعودی عرب جاتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ ہمیں سپورٹ کیا ہے۔
عدنان پراچہ نے کہا کہ اس وقت سعودی عرب ایک وژن 2030 پر کام کر رہا ہے جس میں ہم ان کے ساتھ ہیں اور پہلے کے مقابلے اس وقت پاکستان سے افرادی قوت زیادہ بڑی تعداد میں سعودی عرب جا رہی ہے۔
پاکستان کی افرادی قوت سب سے زیادہ کس ملک میں کام کرتی ہے؟
عدنان پراچہ کہتے ہیں عرب ممالک سمیت ہم دنیا بھر سے کاروبار یہاں لاتے ہیں اور یہاں سے افرادی قوت تیار کرکے ان ممالک میں بھیجتے ہیں جو پاکستان کے زرمبادلہ کا باعث بنتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت 25 فیصد زرمبادلہ صرف سعودی عرب سے آتا ہے اور سعودی عرب ہماری ورک فورس کی اہمیت سمجھتا ہے اور وہ پاکستان کو اپنا دوسرا گھر مانتا ہے یہی وجہ ہے کہ انتظامی بنیادوں پر کھڑی ہونے والی مشکلات جلد حل کرا دی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیے: پاکستانی بیرون ملک مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں، وزارت اوورسیز کا انکشاف
محمد عدنان پراچہ نے کہا کہ ہمیں متحدہ عرب امارات میں غیر قانونی سرگرمیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اب ویسی ہی صورت حال سعودی عرب میں بھی پیدا ہوتی جار ہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہاں دوسرے ممالک کی طرح پاکستانی بھکاریوں کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔
یہ بھکاری اصل میں ہیں کون؟
محمد عدنان پراچہ نے واضح کیا کہ یہ بھکاری روزگار کے ویزے پر نہیں جاتے بلکہ یہ لوگ عمرے یا وزٹ ویزے پر سعودی عرب جاتے ہیں اور پھر بھیک مانگنے پر لگ جاتے ہیں۔
حکومت کو اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا ہوگا
عدنان پراچہ کا کہنا ہے کہ عمرہ یا وزٹ ویزہ پر جا کر بھیک مانگنے والوں کی روک تھام کے لیے ہماری حکومت، ایچ آر منسٹری اور وزارت خارجہ و داخلہ کو سعودی حکومت کے ساتھ بیٹھنا پڑے گا اور اپنی ایک جامع پالیسی بنانی ہوگی۔
مزید پڑھیں: کیا بیرونِ ملک مقیم پاکستانی، قومی تشخص خراب کر رہے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ ایسی پالیسی بن سکتی ہے اور مثبت انداز میں اس معاملے کا حل بھی نکالا جا سکتا ہے اور اگر حکومت کو کہیں ہماری ضرورت پیش آتی ہے تو ہم اپنے ملک کے ساتھ کھڑے ہیں تاکہ اس منفی سرگرمی کو روکا جا سکے۔
اس کا نقصان کیا ہوگا؟
عدنان پراچہ کے مطابق اس معاملے کو دیکھا نہ گیا تو سعودی عرب میں کام کرنے والی ہماری افرادی قوت متاثر ہوسکتی ہے اور نتیجتاً زرمبادلہ بھی متاثر ہوسکتاہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ پہلے تو سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حکومت یہ بات یقینی بنائے کہ سوشل میڈیا پر ہماری افرادی قوت کی مثبت سرگرمیاں دکھائی جائیں۔