سپریم کورٹ کے سینئیر جج جسٹس یحییٰ آفریدی ججز تلخیاں دور کرنے کے لیے متحرک ہوگئے۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی سے تلخیوں کے معاملہ پر بات چیت کی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ وہ ججز کے درمیان تلخیوں کو دور کرنے میں کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ جس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے جسٹس یحییٰ آفریدی کو اس معاملے میں تعاون کی یقین دہانی کرا دی۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے معزز ججز کے درمیان تناؤ بلکہ شدید اختلافات محسوس کیے جارہے ہیں۔ اس باب میں جسٹس منیب اختر کے خطوط اور جسٹس منصور علی شاہ کے بعض ریمارکس کو پیش کیا جاتا ہے۔
پریکٹس ایںڈ پروسیجر ایکٹ ترمیمی آرڈیننس کے اجرا کے بعد جسٹس منصور علی شاہ نے سپریم کورٹ کی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی اجلاس میں شرکت نہیں کررہے، مذکورہ کمیٹی بینچز کی تشکیل اور مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرتی ہے، سپریم کورٹ میں سینیارٹی میں تیسرے نمبر پر جسٹس منیب اختر بھی مذکورہ آرڈیننس سے ناخوش ہیں۔
اپنے تفصیلی خط میں جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63 اے نظرثانی مقدمہ کی سماعت سے یہ کہتے ہوئے احتراز کیا کہ اس مقدمہ کے لیے متنازع آرڈیننس کے تحت تشکیل کردہ بینچ کو غیر قانونی قرار دیا تھا، دوسری جانب جسٹس منصور علی شاہ نے مخصوص نشستوں سے متعلق مقدمہ کا تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ بھی لکھا تھا، جس سے بینچ میں شامل چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اختلاف کیا تھا۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ کے 50 سابق لا کلرکس نے عدالت عظمیٰ کے ججز کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے عدالت میں محسوس کی جانے والی تقسیم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ججز سے متحد ہوکر آئین و قانون کی بالادستی کے لیے اپنا کردار ادار کرنے کی اپیل کی ہے۔
لا کلرکوں نے لکھا ہے کہ اس وقت عدلیہ کی آزادی اور سنہ 1973 کے آئین پر جس طرح کے حملے ہو رہے ہیں ماضی میں ان کی مثال نہیں ملتی۔
واضح رہے کہ لا کلرکس قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک سال کے لیے سپریم کورٹ میں بطور انٹرنی کام کرتے ہیں جہاں وہ مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے سے ججوں کے ریسرچ ورک میں معاونت فراہم کرتے ہیں۔ اس کے عوض انہیں معاوضہ دیا جاتا ہے۔