سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے ڈاکٹر شاہنواز کے قتل میں پولیس کی ناکامیوں سے پردہ اٹھادیا

جمعہ 11 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے ڈاکٹر شاہنواز کمبھار کے ماورائے عدالت قتل کی اپنی فیکٹ فائنڈنگ تحقیقات مکمل کر لی ہیں، جس میں قانون کی خلاف ورزیوں، انتظامی ناکامیوں اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں کی لاپرواہی کی تصدیق ہوتی ہے۔

کمیشن کے چیئرپرسن اقبال احمد ڈیٹھو اور ریٹائرڈ جسٹس ارشد نور خان کی قیادت میں سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی ایک ٹیم نے 20 سے 27 ستمبر 2024 تک عمر کوٹ میں مبینہ طور پر توہین رسالت کے الزام کے تحت ڈاکٹر شاہنواز کمبھار کے ماورائے عدالت قتل کی تحقیقات کیں۔

یہ بھی پڑھیں:ڈاکٹر شاہنواز کو جعلی پولیس مقابلے میں قتل کیا گیا، وزیرداخلہ سندھ

ان نتائج میں قانونی عمل میں اہم خلا، بنیادی حقوق کا ناکافی تحفظ اور حکام کی جانب سے مناسب کارروائی کی کمی کو نمایاں کیا گیا ہے، سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کی رپورٹ مستقبل میں ایسے واقعات کو روکنے کے لیے فوری اصلاحات پر زور دیتی ہے۔

فیکٹ فائنڈنگ مشن میں مقتول ڈاکٹر شاہنواز کے اہل خانہ، مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے ملاقاتیں شامل تھیں، تحقیقات میں حکام کی لاپرواہی، قانونی پروٹوکول پر عمل نہ کرنے اور فرسٹ انفارمیشن رپورٹ یعنی ایف آئی آر میں درج کمزور الزامات کا پردہ بھی فاش ہوا ہے۔

مزید پڑھیں:ڈاکٹر شاہنواز قتل، پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج

کمیشن کی انکوائری میں ‘سنگین پولیس بدانتظامی’ کا پردہ فاش کیا گیا خاص طور پر جان لیوا ‘من گھڑت’ پولیس مقابلے کی وقوع پذیری، جس کی تصدیق اب آئی جی سندھ پولیس کی تشکیل کردہ انکوائری ٹیم بھی کرچکی ہے۔

میڈیا رپورٹ کے مطابق ڈاکٹر شاہنواز کمبھار کی غلط طور پر توہین رسالت کے ملزم کے طور پر شناخت کی گئی تھی، جو ممکنہ طور پر ایف آئی آر کے اندراج کے عمل میں نظام سے متعلق خامیوں کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی، رپورٹ کے مطابق اسی غلط شناخت کے تباہ کن نتائج بالآخر ان کی موت پر منتج ہوئے۔

مزید پڑھیں:توہین مذہب کیس: پولیس ڈرپوک ہوجائے تو بہادر کون رہے گا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ

سندھ ہیومین رائٹس کمیشن کی مذکورہ رپورٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اندر احتساب کے اہم مسئلے کی جانب نشاندہی کرنے کے علاوہ سوشل میڈیا پر مرتب کردہ ‘خطرناک جوش’ کو بھی اجاگر کیا ہے، جس نے تشدد کے مطالبات کو بڑھاوا دیتے ہوئے المناک نتیجہ کو ہوا دینے میں کردار ادا کیا۔

رپورٹ میں پولیس کے اس معاملہ میں کردار کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شاہنواز کو منصفانہ ٹرائل کے آئینی حق سے محروم رکھا گیا۔ ’انہیں عدالت میں اپنا دفاع کرنے کا حق دینے کے بجائے ایک پولیس مقابلے میں مارنا آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت ان کے منصفانہ ٹرائل کے حق کی سنگین خلاف ورزی تھی۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp