شنگھائی تعاون اجلاس، پاکستان کی سافٹ پاور کا اظہار

منگل 15 اکتوبر 2024
author image

وسی بابا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہی اجلاس 15 اور 16 اکتوبر کو اسلام آباد ہورہا ہے۔ 10 رکن ممالک میں سے 7 کے وزرائے اعظم، ایک کا اوّل نائب صدر اور ایک وزیر خارجہ اسلام آباد پہنچ رہے ہیں۔

ممبر ممالک کی حاضری مکمل اور بھرپور ہے۔ منگولیا کا درجہ اس تنظیم میں آبزرور ملک کا ہے اور اس کے وزیراعظم آرہے ہیں۔ ترکمانستان کی کابینہ کے ڈپٹی چیئرمین بھی آرہے ہیں جبکہ ترکمانستان اس میٹنگ کا خصوصی مہمان ہے۔

افغانستان اس تنظیم میں آبزرور کا درجہ رکھتا ہے لیکن افغان طالبان کی واپسی کے بعد سے افغانستان کا اسٹیٹس معطل ہے، جس وجہ سے وہ اس میٹنگ میں شریک نہیں ہورہا۔ اس سے پاک افغان تعلقات کے جاری حالات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ پاکستان اب افغان طالبان حکومت کی سفارتی حمایت سے گریز ہی کرتا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر اور گول میں اچھی ہمسائیگی، باہمی اعتماد بڑھانا، سیاست، تجارت، دفاع، قانون کا نفاذ، ماحولیات، ثقافت، سائنس و ٹیکنالوجی پر تعاون بڑھانا، علاقئی امن قائم رکھنا، دہشتگردی، علیحدگی پسندی اور شدت پسندی کا مل کر مقابلہ کرنا، سوشل ڈیولپمنٹ اور عالمی اہم آہنگی شامل ہیں۔

اس چارٹر کو 2، 4 بار پڑھیں اور ممبر ممالک کا نقشہ دیکھیں۔ افغانستان کی صورتحال دیکھیں، پاکستان کا محل و وقوع دیکھیں اور خطے میں موجود تنازعات کو دھیان میں لائیں۔ پاکستان وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا اور مشرق وسطی سے ملانے کی اہلیت رکھتا ایک اہم ملک ہے۔

اس تنظیم کے فریم ورک کا حصہ سیکیورٹی ڈائیلاگ بھی ہے۔ اس میں ہونے والی میٹنگز میں انسداد دہشتگردی، شدت پسندی اور منشیات کی اسمگلنگ پر کنٹرول کے لیے حکمت عملی پر غور ہوتا ہے، اتفاق رائے کے لیے ایسے نکات ڈھونڈے جاتے ہیں جن پر سب عمل کرسکیں۔

ربط سازی، تجارت اور سرمایہ کاری کے لیے پاکستان اپنا کیس اس فورم پر اچھے سے آگے بڑھا سکتا ہے۔ اس میٹنگ کا اپنے وقت پر ہوجانا بتاتا ہے کہ پاکستان کے اندرونی حالات کو دنیا یا چلیں یوں کہہ لیں ہمارے خطے نے پاکستان کے نیو نارمل کے طور پر قبول کرلیا ہے۔ اس کے پیچھے معاشی عنصر شامل ہیں۔

معیشت ملکوں کو ان کے مؤقف تبدیل کرانے والی ڈرائیونگ فورس بن چکی ہے۔ برطانیہ بہادر کی نئی حکومت کا کہنا ہے کہ پچھلی ٹوری سرکار اس کے لیے 28 ارب ڈالر سے زیادہ کا بلیک ہول (کھڈا) چھوڑ گئی ہے۔ بجٹ کا یہ گیپ کور کرنے کے لیے اب برطانیہ کا دھیان سیدھا چین کی طرف گیا ہے۔

برطامیہ کے وزیر خارجہ اب بیجنگ جا رہے ہیں۔ چین کے ساتھ تجارت کے امکانات ڈھونڈیں گے تاکہ ریونیو کا یہ فرق پورا یا کم کیا جاسکے۔ برطانیہ امریکا کا اتحادی اور یورپی یونین کا ساتھی ہے اور دونوں کا چین کے ساتھ تجارتی اور ٹیرف وار چل رہی ہے۔

یہ بات ٹھیک ہے کہ ہم احتجاج، عدم استحکام اور دھرنوں وغیرہ کے نشے پر لگے ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود پاکستان کا محل و وقوع، اس کی آبادی اور صلاحیت، سب کو مجبور کررہے ہیں کہ ہماری طرف دیکھیں۔

شنگھائی تنظیم کے ممبر ممالک کا مشترکہ معاشی حجم اور آبادی، ممبر ملکوں کا ایک دوسرے کے ساتھ جڑا ہونا، امکانات کے کئی جہاں ہیں۔ خود اپنے چارٹر کی طرف سست رفتار پیشرفت کرتے ہوئے بھی یہ تنظیم ممبر ممالک اور ان کے لوگوں کے حآلات بدلنے کی طاقت رکھتی ہے۔

بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر پاکستان آئے ہیں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا ہے کہ اگر بھارتی وزیراعظم نریندر مودی خود آتے تو اچھا ہوتا۔ ساتھ ہی کہا ہے کہ امید ہے وہ جلد ہی ان کے ساتھ بھی بیٹھیں گے۔ 9 سال پہلے ششما سوراج پاکستان آئی تھیں۔ اس کے بعد بھارتی وزیراعظم کابل سے واپسی پر لاہور رک کر نوازشریف کے گھر جاتی عمرہ پہنچ گئے تھے۔ ملاقات کے دن نوازشریف کی سالگرہ تھی۔

ان دنوں حوالدار بشیر کا سوہنے پر بہت دل آیا ہوا تھا۔ ان دونوں کے سچے پیار کا نتیجہ مودی کا جو یار ہے قسم کے نعروں میں نکلا تھا۔ ہم سے وہ موقع ضائع ہوگیا تھا۔ جے شنکر اب انڈیا میں تو یہ کہتے ہوئے آئے ہیں کہ یہ ملٹی لیٹرل فورم ہے۔ اس پر کوئی باہمی ملاقات یا بات چیت نہیں ہوگی۔ اسحاق ڈار نے بھی ساتھ ہی کہہ دیا ہے کہ ہاں ہاں نہیں ہوگی۔ جے شنکر نے ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ہم پاکستان کے ہر مثبت اور منفی عمل کا جواب دینے کو بھی تیار ہیں۔ ادھر آپ نے مثبت پر فوکس رہنا ہے، ٹینشن نہیں لینی۔

کپتان کی حکومت جانے کے بعد شدت اختیار کیے معاشی بحران اب تھم چکے ہیں۔ پاکستان کی معیشت بہتر ہورہی ہے، یہ آئی ایم ایف کے ساتھ نئے پروگرام میں جانے سے سب کو پتہ لگ گیا ہے۔ بینک شرح سود کم کرچکے ہیں۔ افراط زر کی شرح سنگل ہندسے میں آچکی ہے۔ حکومتی اتحاد نے معیشت کے معاملے پر اپنی سیاست کو جو داؤ پر لگایا تھا اس پر اب کافی حد تک قابو پالیا ہے۔ پھاڈی (پھڈے باز) نمبر 804 اپنے دھرنے والے آئٹم چلا رہا ہے۔ پاکستان ایسے ہی چلے گا کہتے ہوئے معزز مہمان آچکے ہیں۔

سعودی سرمایہ کاری وفد ایک دورہ کرکے جا چکا ہے۔ پاکستان اب اپنی سافٹ پاور دکھاتا، ایک نئے انداز میں سامنے آرہا ہے۔ اگر اعتبار نہیں تو کابل والوں سے پوچھ لیں، وہ آبزرور لگے ہوئے تھے اور باہر بیٹھے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp