10 اپریل کے دن کی تاریخ پاکستان میں دوہری حیثیت رکھتی ہے کہ یہ وہی دن ہے جس نے 2 بار پاکستانی ریاست اور عوام کی کایا کلپ کرنے کی سعی کی۔
پاکستان کی وفاقی، پارلیمانی، آئینی، مزاحمتی اور عوامی جدوجہد کے حوالے سے اس دن کی اہمیت 23 مارچ اور 14 اگست جیسی ہے کہ 23 مارچ اور 14 اگست تحریک و قیامِ پاکستان کے حوالے سے اہم ترین دن ہیں تو 10 اپریل کو بلاشبہ تعمیرِ پاکستان میں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
10 اپریل 1973 کو 26 سال کی جمہوری، پارلیمانی و آئینی جدوجہد بشمول 2 ڈکٹیٹروں سے نبرداآزما ہونے اور آدھے سے زیادہ مشرقی پاکستان گنوانے کے بعد وطنِ عزیز کو پہلا جمہوری، عوامی اور وفاقی آئین نصیب ہوا تھا۔
یاد رہے کہ 1956 کا آئین ون یونٹ مائنڈ سیٹ کی وجہ سے وفاقی نہیں تھا (اس میں سینیٹ نہیں تھا) تو ڈکٹیٹر ایوب کا تخلیق کردہ 1962 کا آئین پارلیمانی نہیں تھا کہ عوامی راج کا قیام وفاقی اور پارلیمانی اصولوں کے بغیر محض ایک ڈھکوسلہ ہی تھا۔ یوں یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ 10 اپریل 1973 کو 26 سالہ جدوجہد کے بعد یہ بات منوا لی گئی تھی کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور عوامی نمائبدوں کے ایوان یعنی پارلیمنٹ کی حاکمیت کے آگے سب سرِ تسلیم خم کریں گے۔
اس عزم کے رکھوالے پاکستانی عوام تھے کہ جنہوں نے 10 اپریل 1986 کو اسے ثابت کرکے دکھایا۔ 10 اپریل 1986، ایک دن جو 9 سال پر بھاری ثابت ہوا کہ اس دن لاہور کی سڑکوں پر رات گئے سے ہی عوامی راج نظر آرہا تھا۔
5 جولائی 1977 کو ضیاالحق نے ملکی آئین توڑتے ہوئے مارشل لا لگایا تھا اور ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ 9 سال تک اس ملک میں میڈیا، عدالتیں اور مقتدر ادارے ضیاالحق کی زبان بولتے رہے۔ ریڈیو، ٹی وی، اخبارات حتیٰ کہ نصابی کتب بھی ضیائی رنگ میں رنگے رہے اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں اور جمہوریت پسندوں کے خلاف 9 سال تک بھرپور ریاستی قوت استعمال کی گئی مگر 10 اپریل 1986 کو لاہور کی سڑکوں پر ثابت ہوا کہ عوام کی اکثریت اس پکڑ دھکڑ اور پراپیگنڈے سے مغلوب نہیں ہوئی۔
شہرِ لاہور پورے برٹش انڈیا میں انگریز مخالف جدوجہد آزادی کے اہم مراکز میں ایک نمایاں مقام رکھتا تھا کہ جب 13 اپریل 1919 کو امرتسر کے جلیاں والا باغ میں جنرل ڈائر نے بیساکھی کا میلہ منانے آئے نہتے لوگوں کو بھونتے ہوئے انگریزی رعب جمانے کی کوشش کی تھی تو لاہوریوں نے موچی باغ میں جلسہ کرتے ہوئے مرنے والوں سے یکجہتی کا اعلان کیا تھا اور اسٹیج پر علامہ اقبال اور میاں فضل حسین دونوں ہی موجود تھے۔ اسٹیج سے انگریز کو امریکی صدر وڈرو ولسن کے 14 نکات کا حوالہ دیتے ہوئے برٹش انڈیا سے نکلنے کا پیغام دیا گیا۔
اسی شہرِ لاہور میں بھگت سنگھ نے 23 مارچ 1931 کو بھری جوانی میں شہیدی دی تھی۔کانگرس نے کامل آزادی کی قرارداد بھی لاہور میں منظور کی تو 10 سال بعد مسلم لیگ نے بھی اسی شہرِ لاہور میں 23 مارچ کو قراردادِ پاکستان منظور کی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے بھی لاڑکانہ یا کراچی کے بجائے تحریکوں کے مرکز لاہور ہی میں آکر اپنی پارٹی بنائی تھی۔
لاہور، جو کئی صدیوں سے انتظامی، سیاسی اور ادبی مرکز تھا، 20ویں صدی میں اس کا شمار برٹش انڈیا کے ان چند شہروں میں ہوتا ہے جو سیاسی تحریکوں کے بڑے مراکزمیں شامل تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کراچی کے بجائے لاہور میں پارٹی بنائی کیونکہ انہیں اندازہ تھا کہ پاکستانی سیاست اور عوامی تحریکوں کا مرکز لاہور ہی ہے۔
پنجاب بالخصوص لاہور نے ہی بھٹو کو قائدِ عوام بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا کہ دسمبر 1970 کے انتخابات میں پنجاب کی بدولت بھٹو نے مغربی پاکستان میں فقیدالمثال کامیابی سمیٹی اور نہ صرف قومی اسمبلی بلکہ پنجاب میں بھی 50 فیصد سے زائد سیٹیں لیں۔ دونوں جگہ پر دوسری بڑی پارٹی آزاد امیدواروں کی تھی کہ قومی اسمبلی میں 16 جبکہ پنجاب اسمبلی میں 28 آزاد امیدوار جیتے تھے، باقی جماعتوں کا کیا حال ہوگا یہ بتانے کی چنداں ضرورت نہیں۔
بھٹو اور پنجاب ایک پنتھ دو کاج تھے مگرمشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے (16 دسمبر 1971) کے بعد یہی بات انگریزی گیٹ کی پیداوار اسٹیبلشمنٹ کے مقتدر گروہ کو کھلنے لگی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انگریزوں کے دور سے بننے والی جنوبی ایشیائی ریاستیں عوام دشمنی کے خمیر پر بنائی گئی تھیں کہ 1947 میں آزادی کے بعد بھی یہی روش اس کے ڈھانچہ اور قوانین میں موجود رہی۔ اس سے نکلنے کا راستہ یہی تھا کہ یہاں کے تمام باسیوں کو عزت و تکریم دی جائے اور ان کی منتخب اسمبلیوں ہی میں تمام تر اہم فیصلے ہوں۔ مگر بنگالیوں کی اکثریت سے لڑنے والی روش 16 دسمبر کے بعد بھی برقرار رہی۔پہلے وہ 52 فیصد بنگالیوں سے خائف تھے تو اب اسی عوام دشمنی کے مائنڈ سیٹ کی وجہ سے انہیں 70 فیصد پنجابیوں کا سامنا تھا جن کی بڑی تعداد پنجاب اور خیبر پختونخوا میں بستی تھی بلکہ پنجابی بلوچستان، اندرونِ سندھ اور کراچی میں بھی تھے۔ ان کی زبان کو توڑنے کا کام تو ایک طویل مدتی منصوبہ تھا جس کی بنیاد 1973 کے بعد رکھی جانے لگی مگر فوری اور اہم مسئلہ بھٹو اور پنجاب کو الگ الگ کرنا تھا۔
اس وقت ان کے ذہن میں یہ سوال نہیں تھا کہ بھٹو کی جگہ اگر پنجاب میں کوئی اور قوت ابھر آئے گی تو پنجاب کی طاقت کی بدولت وہ بھی ان سے پارلیمانی طاقت لینے ہی کا مطالبہ کرے گی۔ بھٹو دور میں قومیانے کے عمل نے بھٹو مخالف ایجنڈے کو پنجاب میں پنپنے کا رستہ دیا کہ اس عمل میں بیوروکریسی کے کمالات کے سبب چھوٹی چھوٹی فیکٹریاں بھی قومیائی گئیں تھیں۔
قومی اتحاد کی تحریک کا ایندھن یہی چھوٹا کاروباری گروہ تھا مگر اس کے باوجود اپنی باکمال عوام دوست پالیسیوں کی وجہ سے 1977 میں بھی بھٹو پاکستان کا مقبول ترین رہنما تھا۔ بھٹو کے خلاف ایک ایسا کیس چنا گیا جس کا مدعی پنجاب سے ہو۔ پہلے تو ضیا شاہی بلوچستان کے پہلے منتخب وزیرِاعلی سردار عطااللہ مینگل کے بیٹے کا کیس بھٹو پر چلانا چاہتی تھی کہ جس کی تصدیق عطا اللہ کے دوسرے بیٹے اختر مینگل کرچکے ہیں مگر پھر قرعہ نواب محمد احمد خان قصوری کے قتل کے نام نکلا جسے 1974 میں کئی سال پہلے قتل کیا گیا تھا۔
بھٹو کو قتل تو ضیا الحق کروانا چاہتا تھا مگر اس کا الزام پنجاب پر لگانے سے ان کا درینہ ایجنڈا پورا ہوتا نظر آتا تھا۔ 24 مارچ 1979 کو بھٹو کی پھانسی کی نظرثانی پٹیشن 7 کے 7 ججوں نے مسترد کی تھی مگر پھیلایا یہی گیا کہ پنجابی ججوں نے بھٹو کو پھانسی دی۔یہی نہیں بلکہ 5 جولائی 1977 کے بعد بلوچ اورپختون لیڈروں کو رہا کرتے ہوئے ضیا شاہی نے یہی پیغام پھیلایا تھا کہ اندرونِ سندھ کے علاوہ کوئی بھٹو کے ساتھ نہیں۔
پورے 9 سال بھٹو، پیپلزپارٹی اور پنجاب میں دُوریاں پیدا کرنے کے لیے گرینڈ ایجنڈا پر کام ہوا۔ 1981 کی مردم شماری میں پنجابی زبان کو توڑنے کے لیے اس کے لہجوں کو زبانیں قرار دینا بھی اسی عوام دشمن ایجنڈے کا ہشیار حصہ تھا۔ یہی نہیں بلکہ کالا باغ ڈیم کو متنازعہ بنانا بھی پنجاب اور دیگر صوبوں میں دُوریاں پیدا کرنے کا پراجیکٹ تھا۔ ولی خان نے بعدازاں یہ تسلیم کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘ضیا چاہتا تو 11 سال میں کالا باغ ڈیم بنا لیتا مگر وہ میرے اور پلیجو کی وجہ سے نہیں رکا بلکہ اس کا یہ ایجنڈا ہی نہیں تھا’۔
پورے 9 سال تک پنجاب اور بھٹو کو الگ الگ کرنے کے ایجنڈے پر کام ہوا مگر ضیا مخالف تحریک میں اس کے باوجود سب سے زیادہ قربانیاں پنجاب ہی کے جوانوں نے دیں کہ اس ضمن میں رہائی کمیٹی کا ریکارڈ گواہ ہے۔
یہی وجہ ہے کہ 10 اپریل 1986 کی رات لاہور نے ضیا شاہی کو بتا دیا تھا کہ 9 سال کے پراپیگنڈے کو عوام تسلیم نہیں کرتے۔ لاس اینجلس ٹائمز کے مطابق اس دن 40 لاکھ بندگانِ خدا ضیا شاہی کو لاہور کی سڑکوں پر للکار رہے تھے۔ بہت سے لوگ باہر سے ضرور آئے تھے مگر ان کا تناسب آٹے میں نمک کے برابر تھا کہ بھنگیوں کی توپ اور گورنمنٹ کالج سے لے کر گرجا چوک کینٹ تک لاہوریے مال روڈ پر پھرتے رہے کہ سویرے محترمہ بے نظیر بھٹو کا جہاز لینڈ کرنا تھا۔
جنرل ضیا الحق کا بد ترین مارشل لاء اور شہید بی بی کے استقبال کیلئے عوام کا سمندر امڈ آیا
وقت کے گزرنے پر تم جو بھول جاؤ گے
ہم تمہیں بتائیں گے بینظیر کیسی تھی
زندگی کے ماتھے پر وہ لکیر جیسی تھی
ظلم کے نشانے پر ایک تیر جیسی تھی
بینظیر بھٹو بس بینظیر جیسی تھی pic.twitter.com/wzhib9deCj— لئیق (@laieq_hashmi) April 10, 2019
10 اپریل 1986 کا دن اس لیے نہیں بھلایا جاسکتا کہ اس دن کتابوں سے نکل کر حقیقت میں اس بات کا ادراک ہوا تھا کہ عوامی طاقت ہوتی کیا ہے۔ انگریز مخالف تحریکوں سے متعلق تو کتابیں پڑھ رکھی تھیں اور 1981 میں میٹرک کرنے کے بعد ایم آر ڈی کو ہی جدوجہد کی علامت سمجھتا تھا۔ پھر کراچی کے طفیل عباس کے کومونسٹ گروپ کے والٹن لاہور والے دوستوں سے قربت بن چکی تھی۔ یہ گروپ تحریکِ استقلال میں کام کرتا تھا جو ایم آر ڈی کا حصہ تھی۔ غالباً ایم آر ڈی کے موچی دروازے میں ایک جلسہ ہوچکا تھا جس میں 80 فیصد شرکا کا تعلق پیپلزپارٹی سے تھا۔
پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان پر اعتبار اسی لیے اٹھ چکا تھا کہ وہ ڈکٹیٹر کا کاسہ لیس تھے جبکہ اخبارات میں بھی ایم آر ڈی کی خبریں کم کم چھپتی تھیں۔ 9 اپریل کی رات گوالمنڈی سے مال روڈ کا چکر لگایا تو ٹھنڈی سڑک پر لوگ ہی لوگ تھے اور سب صبح کے استقبال کی تیاری کرکے نکلے تھے۔ لہوریے تو ویسے ہی میلے ڈھیلے کے شوقین ہوتے ہیں اور یہ میلہ تو 9 سال بعد آیا تھا۔
دن کا وقت اس سے بھی زیادہ پُررونق تھا اور لوگوں کے سروں کے سر چل رہے تھے، لوگوں میں غصہ تو ضیاالحق کے خلاف تھا مگر کہیں کہیں جونیجو حکومت کے خلاف بھی نعرے لگ رہے تھے۔
جلوس گرجا گھر کینٹ سے ہوتا ہوا مال روڈ پر روا تھا اور بے نظیر بھٹو کے ٹرک کے آس پاس اس قدر رش تھا کہ اسے بس دُور سے ہی دیکھا جاسکتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک صاحب ریگل چوک اور دیال سنگھ مینشن کے پاس کہیں انہماک سے کھڑے تھے اور گھڑی پر دیکھنے کے بعد انہوں نے پورے ایک منٹ اپنے سامنے سے گزرنے والوں کو گنا اور یہی مشق 3، 4 بار کی اور جلوس گزرنے کا انتظار کرتے رہے۔ کچھ دیر حساب لگانے کے بعد انہوں نے کہا کہ جلوس میں 5 لاکھ سے زیادہ بندے ہیں۔
جلوس شام تک مال روڈ اور داتا صاحب سے ہوتا ہوا مینارِ پاکستان پہنچا جو پہلے سے ہی بھر چکا تھا۔ رش کو دیکھتے ہوئے جلوس سے ہٹ کر انارکلی کے راستے لوہاری گیٹ سے اندرونِ شہر گھس کر ہیرا منڈی اور شاہی قلعے سے مینار پاکستان کی طرف جانے والا رستہ تو مجھے اچھی طرح آتا تھا مگر لگتا یہی تھا کہ سارا شہر اسی طرف جا رہا ہے۔

خیال یہی تھا کہ رش زیادہ ہوا تو شاہی قلعہ کی ڈھلوان سے مینارِ پاکستان کا نظارہ دیکھا جاسکتا ہے اور ویسا ہی ہوا۔ معظم علی معظم کی پنجابی نظم ‘بھٹو دے نعرے وجن گے’ نے سماں باندھا ہوا تھا۔ البتہ ایک نامعلوم شاعر کی نظم ‘میں باغی ہوں، میں باغی ہوں، جو چاہے مجھ پر ظلم کرو’ نے بھی سماں باندھ دیا اور بعدازاں پتہ چلا کہ یہ خالد جاوید جان کی شاعری ہے جنہیں اس وقت کم ہی لوگ جانتے تھے۔
اس دن یہ اندازہ بخوبی ہوا تھا کہ حکمران اور ریاستیں عوامی قوت سے کیوں خائف رہتے ہیں اور کیوں عوامی اجتماعات سے گھبراتے ہیں۔ بھٹو کا تختہ 9 سال پہلے جنرل ضیا نے الٹا تھا، اور 7 سال پہلے بھٹو کو پھانسی بھی دی جا چکی تھی تاہم ٹی وی اور اخبارات ہر روز بھٹو کے مظالم دہراتے تھے۔
یہ درست ہے کہ 1985 کے اختتام تک ضیا شاہی کو اپنا انجام نظر آنے لگا تھا کہ جس روس مخالف افغان جہاد کی وجہ سے سیکولر امریکا و مغرب نے اس انتہا پسند جرنیل کی مدد کی تھی اس کی چل چلاؤ کے اشارے ملنے لگے تھے۔
روسی سفارتکار سمونیا افغانستان کو رستا ہوا زخم قرار دے چکا تھا جبکہ امریکا اور مغربی یورپ اس آگ کو بھجانے کے بعد کی صورتحال بارے فکرمند تھے۔ سب کو چکر دینے کے لیے ضیاالحق نے ہائبرڈ بندوبست کے تحت مارشل لا اٹھایا اور جونیجو کی شکل میں لولی لنگڑی جمہوریت کا ڈرامہ بذریعہ غیر جماعتی الیکشن رچایا۔ اس انتخابات کا بائیکاٹ ایم آر ڈی کا ایک غلط فیصلہ تھا جس نے اسمبلیوں میں پیپلزپارٹی مخالف عنصر کو مجتمع ہونے کا موقع دے دیا۔ بعدازاں بے نظیر بھٹو نے اس غلطی کو تسلیم بھی کیا۔ تاہم اپریل 1986 کو وطن واپسی اور لاہور جہاز کو لینڈ کروانا ایک سوچا سمجھا فیصلہ تھا۔
یہ ضیاالحق کے ہائبرڈ سسٹم کو اندر سے نقب لگاتے ہوئے ایکسپوز کرنے کی جرأت مندانہ کاوش تھی جس میں بھٹو کا ویژن جھلکتا تھا۔ ضیاالحق نے اپنے مربیوں (امریکا و مغربی یورپ) کو رام کرنے کے لیے جو جمہوریت بحال کی تھی بے نظیر بھٹو نے کمال ہوشیاری سے اسی گنجائش کو استعمال کیا اور یہی وجہ تھی کہ جنرل ضیا کو 10 اپریل برداشت کرنا پڑا۔
اسے پتہ تھا کہ اگر اس نے 10 اپریل کو اپوزیشن رہنما کو لاہور اترنے کی اجازت نہ دی تو وہ اپنے مربیوں کی حمایت سے بھی محروم ہوگا اور اسے اپنا جعلی اقتدار برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔
امریکی اخبار کے مطابق 10 اپریل کے دن پاکستان میں مقیم امریکی و یورپی غیر ملکی سفارتکار ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ کہیں یہ عوام کا اجتماع پُرتشدد ہوگیا تو لاہور میں ایک اور اکتوبر انقلاب نہ برپا ہوجائے۔ دوسری طرف جواں سال بے نظیر بھٹو تھیں جو لاہور کی سڑکوں پر ضیا شاہی کو سسکتا دیکھ رہی تھی۔
ان کے روبرو ایک تکونی یدھ تھا کہ ایک طرف پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اشرافیہ کا وہ حصہ تھا جس نے ڈالر جہاد میں خوب ذاتی دولت بنائی تھی جس کا خمیازہ پاکستانی عوام اور ریاست بھگت رہی تھی مگر اس سے کمائی منفعت ان کی جیبوں میں بھری ہوئی تھی اور انہیں بجا طور پر ڈر تھا کہ کہیں ان سے رسیدیں نہ مانگ لی جائیں۔
اس تکون کی دوسری طرف امریکا و مغربی یورپ کے ممالک تھے جو سویت یونین (اب روس) سے اپنا اسکور سیٹل کرنے کے لیے آئین توڑنے اور خواتین و مذہبی اقلیتوں کے خلاف سخت قوانین بنانے والے ضیاالحق کے ‘پکے سجن’ رہے تھے مگر 1985 وہ سال تھا جب اس پراجیکٹ کو ختم کرنے کے بعد کے حالات پر غور ہونا شروع ہوچکا تھا۔
اس تکون کی تیسری طرف پاکستانی عوام تھے جن کی نمائندہ بے نظیر بھٹو تھیں مگر ضیا مخالف تحریک بحالی جمہوریت میں ان کے ساتھ ایسی جماعتیں بھی تھیں جو افغان عوام کے بجائے انقلابِ ثور کو روسی فوجوں کے ذریعے بچانے کے حمایتی تھے اور پاکستانی انقلاب کے لیے اسی عینک کا استعمال کرتے تھے۔
دوسری طرف بے نظیر بھٹو سمجھتی تھیں کہ پاکستانی مسائل کا حل سویلین اقتدارِ اعلی اور عوامی منتخب حکومت ہی کرسکتی ہے۔ انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ امریکا اور مغربی یورپ کی بیساکھیوں کی وجہ ہی سے ضیا شاہی برقرار ہے اور اب جب اپنے مفادات کے لیے وہ ضیا سے پیچھے ہٹ رہے ہیں تو انہیں اسی خلیج کو وسیع کرتے ہوئے عوامی مفاد کو ڈھونڈ نکالنا ہے۔
ضیائی اسٹیبلشمنٹ ایک طرف امریکا کو کہتی تھی کہ ہم ہی آپ کے وفادار ہیں، ہم نے آپ کو روسیوں کے خلاف مدد دی ہے، بے نظیر آپ کے مفادات کو زک پہنچائے گی مگر دوسری طرف یہی اسٹیبلشمنٹ اندرون ملک خود کو فاتح روس اور بے نظیر کو امریکی ایجنٹ قرار دینے کا متضاد. بیانیہ چلا رہی تھی۔
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ریاض محمد خان کی کتاب گواہ ہے کہ ان دنوں پاکستان میں ایسی لابی بہت تگڑی تھی جوافغان ڈیل کے خلاف تھی کیونکہ ان کی ڈالری دکان بند ہونے کا خطرہ تھا۔
10 اپریل 1986 کا دن اس تمام تر ہلچل کے ساتھ آیا، ملک پاکستان نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع دیکھا، یورپی سفارتکاروں کے خدشات بھی غلط ثابت ہوئے کہ بے نظیر لاہوریوں کے ہمراہ مینارِ پاکستان گئیں، جلسہ کیا اور ثابت کیا کہ بے نظیر بھٹو پُرامن جمہوری و سیاسی جدوجد کی امین ہیں۔

یہ ایک دن 9 سال پر بھاری تھا اور اس دن یہ ثابت ہوا کہ ووٹ کی طاقت کو نہ دبایا جاسکتا ہے اور نہ گمراہ کیا جا سکتا ہے۔ گوکہ 2 سال بعد اسی دن اوجڑی کیمپ کا سانحہ بھی ہوا مگر سب پاکستانی جانتے تھے کہ یہ انہی کا کیا دھرا ہے جو افغان ڈالروں کی رسیدیں چھپانا چاہتے ہیں۔
یہی 10 اپریل پچھلے سال بھی آیا تھا جب ایک دن پہلے پاکستان کی پارلیمنٹ نے پہلی دفعہ عدم اعتماد کے ذریعے ایک سلیکٹڈ وزیرِاعظم عمران خان کو گھر بھیج کر تاریخ رقم کی تھی۔ یہی 10اپریل آج پھر آرہا ہے کہ آج 1973 کے آئین کو 50 برس ہو رہے ہیں۔
چند دن قبل پاکستان کی پارلیمنٹ نے اپنی حاکمیت کے لیے ایک تاریخی قرارداد منظور کی۔ عوام کی حاکمیت کے لیے کی جانے والی وہ جدوجہد جو انگریز دور اور قیامِ پاکستان سے چل رہی ہے وہ تاحال جاری ہے کہ آج کی اسمبلیاں انگریز دور کی محدود اسمبلیوں سے کہیں تگڑی ہوچکی ہیں۔
8ویں اور 17ویں ترامیم کی دراندازیوں کے باوجود 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اس جدوجہد نے نئی جست لگائی ہے جسے کوشش کے باوجود عمران خان کے دور میں بھی لپیٹا نہیں جاسکا۔ آج آئین و پارلیمنٹ اور سویلین اقتدارِ اعلی کی اس لڑائی میں سپریم کورٹ کے جج بھی حصہ ڈال رہے ہیں، فوج خود کو نیوٹرل کہہ رہی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔