کچھ لوگ بدنام ہونے کے خواب دیکھتے ہیں

منگل 22 اکتوبر 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

زمانہ واقعی بدل رہا ہے۔ وہ جوکہا جاتا ہے کہ ’اچھی شہرت کمانے میں زمانے لگ جاتے ہیں لیکن بدنام ہونے میں ایک لمحہ لگتا ہے‘، بالکل درست ہے اوراب تو کئی لوگ غالب کےمصرع ’بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا‘، کو طنز کی بجائے حقیقت خیال کرتے ہوئے بدنام ہو کر لمحوں میں ’وائرل‘ ہونے کے خواب دیکھتے ہیں۔ جدید ذرائع کی سہولت سے ان کے لیے یہ کام آسان سے آسان تر ہوتا جارہاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اب مقبولیت اوربدنامی گڈ مڈ ہو گئے ہیں۔

بدنام ہونے میں فائدے بھی ہیں اور بیشتر صورتوں میں نیک نامی سے زیادہ ہیں۔ یعنی سوشل میڈیا کے لائکس اور ویوز کے تناظر میں دیکھا جائے تو اب لعن طعن اور مخالفت ایک مثبت کام سمجھا جانے لگا ہے۔ غالب کا یہ طنز اس زمانے کی بات ہے جب میڈیا کے جدید ذرائع نہیں تھے۔ اخبار، ریڈیو اور ٹی وی تک کے سفر میں اس ’ بدنامی‘ کو میسر آنے والے ذرائع سوشل میڈیا کے دور میں نئی رفعتوں کو چھورہے ہیں۔

لیکن ایسا نہیں کہ یہ بدنامی سب کو پسند ہے۔ بدنامی کچھ لوگوں کے نزدیک آج بھی واقعی بُری چیز ہے۔ صحیح معنوں میں اچھی شہرت رکھنے والے دانشور اورنابغہ روزگار شخصیات کے لیے اور کچھ مصنوعات کے لیے جھوٹا الزام پریشان کن ہوتا ہے اور ان کا واقعتاًمعاملہ خراب ہو سکتا ہے، لیکن دوسری قسم ان شخصیات کی ہے جنھیں نیک نامی یا بدنامی سے کوئی غرض نہیں ہوتی، انھیں بس اپنا نام زیادہ سے زیادہ پھیلانا یا اپنی شکل کو زیادہ سے زیادہ معروف کرانا مقصود ہوتا ہے۔ چاہے اس کے لیے کوئی بھی طریقہ استعمال کیا جائے۔

انھیں بس کوئی تنازعہ چاہیے ہوتا ہے، جو ان کی شہرت کو چار چاند لگا سکے۔ ان میں پہلے سے ’بدنام‘ لوگ ’اِن‘ رہنے کے لیے اور شہرت کا دائرہ مزید وسیع کرنے کے لیے ’بلا خوف‘ کیا کیا حرکتیں نہیں کرتے۔ انھیں یہ اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پیروکاروں یا چاہنے والوں کی فوج ظفر موج ان کی ہر بات کا دفاع کرنے کے لیے موجود ہے اور مخالفت کرنے والوں کا ’دانہ پانی‘ بند کر سکتی ہو۔ مذکورہ شخصیات جومنہ میں آئے کہہ دیتی ہیں اور ان کے پیروکاراِن کابڑھ چڑھ کر دفاع کر رہے ہوتے ہیں۔ بلکہ یہ شخصیات اگرکبھی اپنی بات کی تردید کر دیں یامعذرت کر لیں، تو ان کے چاہنے والوں کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔

چاہنے والوں کی اسی محبت نے ان شخصیات کو تردید اور معذرت کرنے سے بھی روک رکھا ہوتا ہے۔ بلکہ نوبت بہ ایں جا رسید کہ وہ اب تردید کی بجائے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے پھرتے ہیں۔ اب ذرا ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کے معاملے کو ہی دیکھ لیجیے۔ جب انھوں نے سٹیج پر بچیوں کو شیلڈز دینے سے یہ کہہ کر انکار کر دیاکہ بچیاں نامحرم ہیں، میں انھیں ’چھو‘ نہیں سکتا۔ ذاکر نائیک صاحب کے مداحوں کو تو خیر اس بات کا دفاع ہی کرنا تھا اور ان میں سے بیشتر کے نزدیک یہ عمل درست بھی تھا لیکن ذاکر نائیک صاحب کے لیے حسن ظن رکھنے والے کچھ دوستوں نے اس کا دفاع یہ کہہ کر کیا کہ یہ خبر غلط ہے، دراصل ان کے پاس وقت کی کمی تھی سو انھوں نے شیلڈ ز دینے سے معذرت کر لی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب نے بعد میں خود اس عمل کودرست قرار دیا اوربتایا کہ انھوں نے ان بچیوں کو نامحرم جان کرہی شیلڈز دینے سے انکار کیا تھا۔ اب ذاکر نائیک صاحب کی فالونگ تو مطمئن ہو گئی کہ ان کا موقف درست تھا۔ البتہ حسن ظن میں دفاع رکھنے والے پریشان ہو گئے کہ ہم نے خواہ مخواہ اس مسئلے میں جان پھنسائی۔ اس ایک مثال سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ کیسے سوشل میڈیا پر بڑی بڑی بحثیں جنم لیتی ہیں اور کس طرح فالورز ایک بات کو 50 دلائل سے ثابت کر سکتے ہیں۔

اب ذرا جن کی پکی فالوونگ نہیں ہوتی ان کی کہیں بدنامی ہو جائے تو کیا معاملہ ہوتا ہے، ایک جھلک دیکھیے۔ پچھلے دنوں لاہور سے اسلام آباد موٹر وے پرگاڑی میں چار لوگ جاں بحق ہوگئے۔ اس کا سبب مبینہ طور پر بھیرہ کے ریسٹ ایریا میں کسی ریستوران سے زہریلا کھانا قرار دیا گیا۔ اس پر سوشل میڈیا پرایک طوفان اٹھا اور لوگوں نے بھیرہ کے ریسٹ ایریا کے تقریبا تمام فوڈ پوائنٹس کے نام لے لے کرمذکورہ موٹر وے پر سفر کرنے والوں کو خوف میں مبتلا کر دیا۔

کئی دن بعد جب ٹیسٹ رپورٹ سامنے آئی توراز کھلا کہ ان چار افراد کی موت کا سبب زہریلا کھانا نہیں بلکہ گاڑی کے اندر لیک ہونے والی گیس تھی۔ لیکن یہ خبر سنسنی خیز نہیں تھی سوکتنے لوگوں نے پڑھی ہو گی؟ اب جنھیں یہ دوسری خبر نہیں پہنچی وہ زمانوں تک بھیرہ سے گزرتے ہوئے اس خوف میں مبتلا رہیں گے کہ یہاں سے کھانا کھانے سے چار لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ ان فوڈ پوائنٹس کے مسائل اپنی جگہ، جو اس سے بھی بھیانک ہیں، لیکن یہاں ہمارا موضوع کچھ اور ہے۔ بات یہ ہے کہ کھابوں کی فالوونگ نہیں ہوا کرتی، وہ بولنے والوں کی ہوتی ہے۔

اسی لیے اب مصنوعات کی بجائے شخصیات کی ’برانڈنگ‘ہو رہی ہے۔ فی زمانہ یہی ہے وہ طریقہ جسے استعمال کر کے بیشترسیاسی و مذہبی رہنما اور فنکاراور کھلاڑی شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ان کے چاہنے والوں کا لشکر ان کے ساتھ ہے، سو ڈر کاہے کا۔ اس رجحان نے معاشرے کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ اب مبنی بر حقیقت بات کی بجائے لائیکس اور ویوز کے چکر میں جھوٹ اور متنازعہ بات کرنازیادہ اہم ہو گیاہے۔ احسا س ذمہ داری جا رہی ہے اور بات کرنا اہم نہیں، غلط بات کرنا زیادہ قرار پایا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp