جمال احسانی کا مذکورہ بالا مصرع دنیا سے کوچ کر جانے والوں کے لیے لکھی گئے اظہاریوں میں اس قدر استعمال ہوتا ہے کہ اس کی تاثیر ختم ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن اب بھی کچھ چراغوں کے بجھنے پریہ شعرشدت سے یاد آتا ہے، اور ان چراغوں کے بجھنے پر تو بہت ہی یاد آتا ہے جن کا بجھنا صرف جسمانی طور پر ہو۔ میں یہاں روحانیت کا ذکر نہیں کر رہا بلکہ میری مراد وہ شخصیات ہیں جو اپنے علم و ہنر سے وہ رستے بنا جاتی ہیں جو بعد میں آنے والوں کے لیے مشعل راہ ہوتے ہیں، اور ان رستوں کے راہی انھیں ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔
انصاری صاحب کا نام پہلی بار’گوتم کاآخری وعظ’ کے حوالے سے سنا اوران کی مزید شاعری پڑھ کرتصور میں جو شخصی خاکہ بنا وہ یہی تھا کہ کوئی درویش صفت سادہ مزاج استاد شاعرقسم کی شخصیت ہو گی۔ پھر ان کی کچھ تصاویر دیکھیں اور کچھ اکابرین سے ذکر سنا تو معلوم پڑا کہ وہ تو اچھے خاصے ماڈرن شخصیت کے مالک ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ کس قدر وضع دار اور رکھ رکھاوٴ والی شخصیت کے مالک تھے اس کی ایک مثال دیکھیے۔
ڈاکٹر نجیب جمال سے ان کا خاص محبت کا رشتہ تھا، انھوں نے ایک ویڈیو شئیر کی جس میں انصاری صاحب نجیب صاحب کی جانب سے کتاب موصول ہونے پرویڈیو پیغام کی صورت میں شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ یقین کریں میرا گلارندھ گیا۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ کہاں آج کل کے دوست جو کتابوں کی رسید تک دینا گوارا نہیں کرتےاور کہاں وہ بزرگ جو اس طرح شکریہ ادا کر رہے ہیں۔ یہ بات مجھے مزید افسردہ کرتی ہے کہ انصاری صاحب جیسی شخصیات کا جانا خود اس عہد کے لیے بہت بڑا نقصان ہے۔ ان کا وجود غنیمت تھا۔
مجھے ان کی تحریروں اور شاعری نے ہمیشہ متاثر کیا۔ ہمارے اور انصاری صاحب کے درمیان دو نسلوں کا فرق تھا۔ اس لیے ہم لوگ اگر انھیں روکنا چاہتے بھی تو کیسے روک سکتے تھے، اس بے بسی کا اظہار انھی کی ایک بے مثال غزل کے مطلع کی زبانی سنیے،
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
کسی بڑی شخصیت کے دنیا سے یوں چلے جانے پر ادب سے جڑے ہوئے لوگوں کی جانب سے دکھ کا اظہار فطری بات ہے اور دوست جینے والوں سے زیادہ مرنے والوں کا ذکر کرتے ہیں، لیکن جس محبت اور احترام سے انصاری صاحب کو یاد کیا گیا اور ان کا ذکر ہوا، وہ کم کم اکابرین کے حصے میں آتا ہے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے ان کے لیے دل سے ایک الوداعی تحریر لکھی جس میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ ان کے زبانوں کے علم کے حوالے سے تعارف کچھ ان الفاظ میں کرایا،
“اسلم انصاری نے ایک سے زیادہ زبانوں کوذریعہ اظہار بنایا۔ سرائیکی ان کی مقامی تھی۔ اس میں ناول بھی لکھا، جس کا اردو ترجمہ الیاس کبیر نے ‘ناؤ میں ندیا’ کے عنوان سے کیا۔ اردو، قومی زبان ولنگوافرینکا تھی۔ سب سے زیادہ سرمایہ اسی میں تخلیق کیا۔ فارسی ان کی تہذیبی زبان تھی، جس میں ان کا کلیات اکادمی ادبیات، اسلام آباد نے شائع کیا۔ انگریزی، عالمی زبان تھی، جس میں انھوں نے نظمیں اور ڈرامے لکھے۔ خواجہ فرید کی کافیوں کے انگریزی ترجمے میں بھی ہاتھ بٹایا۔ اردو میں غزل و آزاد نظم کے علاوہ رباعیات تخلیق کیں۔ طویل منظوم تمثیلیں بھی لکھیں۔ ان کی نظم ‘تکرار تمنا’، جسے وہ منظوم تصوریہ کہتے ہیں، بہت اہم ہے۔ ‘ارمغان پاک’ کے عنوان سے ہند وستان میں مسلم تشخص کے ارتقا کی منظوم تاریخ بھی لکھی۔”
آخر میں ان کی جدید لب و لہجے کی حامل منفرد غزل دیکھیے جو مجھے بہت پسند ہے،
ایک سمندر ایک کنارہ ایک ستارا کافی ہے
اس منظر میں اس کے علاوہ کوئی اکیلا کافی ہے
دینے والا جھولیاں بھر بھر دیتا ہے تو اس کا کرم
لینے والے کب کہتے ہیں داتا اتنا کافی ہے
ایک غلط انداز نظر سے گلشن گلشن داغ جلیں
شبنم شبنم رلوانے کو ایک ہی جملہ کافی ہے
خشک لبوں پر پیاس سجائے بحر آشام نہیں ہیں ہم
ہم جیسوں کو تشنہ لبی میں ایک ہی دریا کافی ہے
اب تو اور بھی دنیائیں ہیں منتظر ارباب ہوس
ان لوگوں کا قول نہیں ہے ہم کو یہ دنیا کافی ہے
شہر وفا سے دشت جنوں تک چاہے جتنے مراحل ہوں
وحشت کے تو دوسرے رخ پر ایک دریچہ کافی ہے
حسن سخن باقی رکھنے کو کچھ ابہام ضروری ہے
کہتے کہتے رک جانے میں ہے جو اشارہ کافی ہے
اس کے افسوں اس کے فسانے دونوں کو مسحور رکھیں
عقل و جنوں کی دہلیزوں پر خواب کا پہرہ کافی ہے
ایک سبھا دل والوں کی اک تان رسیلے لوگوں کی
شہر کے روشن رکھنے کو اتنا سا اجالا کافی ہے