جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس آف پاکستان کو لکھے ایک اور خط میں خصوصی بنچ میں بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ کی تشکیل تک وہ خصوصی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ 2023 کے تحت تشکیل دی گئی کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے مخاطب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا ہے مقتدر حیثیت میں ہم بھول جاتے ہیں کہ اس ملک کے لوگ ہمارے اعمال پر نظر رکھتے ہیں اور تاریخ کبھی معاف نہیں کرتی۔
یہ بھی پڑھیں:’وہی ہوگا جو اللہ چاہے گا‘ جسٹس منصور علی شاہ نے ایسا کیوں کہا؟
23 اکتوبر کو لکھے اپنے خط میں خصوصی بینچ میں بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا ہے کہ پہلے بھی لکھا تھا ترمیمی آرڈیننس پر فل کورٹ بیٹھنے تک وہ خصوصی بینچ کا حصہ نہیں بنیں گے، انہوں نے واضح کیا کہ وسیع تر عوامی مفاد میں وہ صرف باقاعدہ بینچز کا حصہ بنیں گے جو عوامی مقدمات کی سماعت کرے گا۔
’جب تک فل کورٹ بینچ 2024 کے آرڈیننس نمبر 8 کے نفاذ کے ساتھ ساتھ اس میں کی گئی ترامیم کی آئینی توثیق کا تعین نہیں کرتا یا جج ان ترامیم کی آئینی حیثیت پر زیر التوا عدالتی میٹنگ پر مکمل طور پر اس پر عملدرآمد کا فیصلہ کرتے ہیں، یا پھر چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججوں پر مشتمل سابقہ کمیٹی بحال ہو جائے، میں نئی کمیٹی کی طرف سے بنائے گئے خصوصی بینچز کا حصہ نہیں بنوں گا۔‘
مزید پڑھیں:جسٹس منصور علی شاہ کو پی ٹی آئی نے متنازعہ بنایا، رانا ثنا اللہ
جسٹس منصور علی شاہ کے مطابق انہوں نے مذکورہ وجوہات کی بنیاد پر تشکیل کردہ بینچ سے خود کو علیحدہ کرلیا ہے۔ اپنے خط کا اختتام انہوں نے ’اے مین فور آل سیزنز‘ سے سر ٹامس مور کے ایک اقتباس کو نقل کرتے ہوئے کیا ہے۔
’میرا خیال ہے کہ جب سیاستدان اپنے عوامی فرائض کی خاطر اپنے ضمیر کو فراموش کر دیتے ہیں، تو وہ افراتفری کا ایک مختصر راستہ اپناتے ہوئے اپنے ملک کی قیادت کرتے ہیں۔‘