سیاستدانوں کی زندگی بھی عجیب ہوتی ہے۔ حکومت میں ہوتے ہیں تو کرپشن کا غلغلہ اٹھتا ہے۔ حکومت سے باہر ہوتے ہیں تو احتساب کا نعرہ لگتا ہے۔ بولتے ہیں تو لوگ کہتے ہیں کہ بولتا کیوں ہے۔ چپ رہتے ہیں تو لوگ خامشی سے بدگمان ہوتے ہیں۔ اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہیں تو لوگ اسے اوچھے ہتھکنڈوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ اپنا غم بتاتے ہیں تو لوگ حالت زار کے طعنے دینے لگتے ہیں۔ حتیٰ کہ سیاست سے کنارہ کش ہوتے ہیں تب بھی جملہ باز جملہ اچھالنے سے باز نہیں آتے۔ زخم کو کریدتے ہیں، پھر نمک چھڑکتے ہیں اور آہ و زاری پر ایک معنی خیز مسکراہٹ دکھاتے ہیں۔
یہ خصوصی برتاؤ نواز شریف اور دیگر سیاستدانوں کے ساتھ دانشوروں نے مدت سے روا رکھا ہوا ہے۔ خان صاحب عامیوں کی اس فہرست میں نہیں آتے اسی لیے خان صاحب کو کسی نے آج تک یہ نہ پوچھا کہ دو ہزار چودہ کے دھرنے کے جوتم پیزار میں آپ نے اپنی دوسری شادی کی نوید قوم کو کیوں سنائی؟ دیسی مرغی کا شوربہ نہ ملنے پر طبیعت پر کیا بار محسوس ہوتا ہے؟ اور جیل میں وہ سہولتیں جو عام آدمی کو خواب میں بھی میسر نہیں انہی سہولتوں سے آراستہ جیل کو کال کوٹھڑی کس دل سے کہہ لیتے ہیں؟
نواز شریف پاکستان آئے تو اب تک نہ انہوں نے کوئی عہدہ لیا نہ کوئی زیادہ سیاسی سرگرمی دکھائی۔ کبھی کبھار وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہمراہی میں کسی تندور والے کی سرزنش کرتے ہیں، شعر کی علامتوں اور رمزوں میں بات کرتے ہیں۔ لوگ اس پر بھی معترض ہیں۔ ان کے خیال میں آج کل جج بھی نواز شریف کی مرضی کے لگتے ہیں۔ بڑا جج بھی صبح میاں صاحب کو گڈ مارننگ کے میسج بھیجتا ہے۔ حافظ صاحب روزانہ فون کر کے دعا سلام کر لیتے ہیں۔ مودی بھی سرخ دل والی ایموجی بھیجتا ہے اور بائیڈن بھی پریس کانفرنس کرنے سے پہلے مشورہ کر لیتا ہے۔
لوگوں کا بس نہیں چلتا ورنہ یہ بھی کہہ دیں کہ نواز شریف کے ہاتھ پر کبوتر اپنی جبلت کی وجہ سے نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی وجہ سے بیٹھا تھا۔ شکر ہے لوگ یہ نہیں کہتے کہ اس ملک کے سارے ترقیاتی کام بھی نواز شریف کی عمران خان کے خلاف سازش تھے۔ نہ یہ پل، سڑکیں اور ائرپورٹ بنتے نہ خان کو کوئی کارکردگی کا طعنہ دینے کی جرات کرتا۔
شنید یہ ہے کہ نواز شریف وطن سے باہر جا رہے ہیں۔ پہلے دوبئی پہنچیں گے، پھر امریکا کی جانب روانہ ہوں گے، وہاں سے لندن کی طرف رختِ سفر باندھیں گے۔ لندن میں کچھ دن قیام کے بعد دل چاہا تو پاکستان آجائیں گے۔ موڈ نہ ہوا تو کسی اور جانب عازم سفر ہو جائیں گے۔دوبئی میں کس سے ملاقاتیں ہوں گی؟ نہیں معلوم۔ سنا ہے کہ امریکا میں کسی خاندانی دوست کے ہاں تعزیت کے لیے جانا ہے اور سفر لندن کی غائت کچھ دل کا معاملہ ہے۔ کچھ معالجوں سے ملاقاتیں ہیں، کچھ ٹیسٹ ہونے ہیں۔ کچھ طبی معاملات درپیش ہیں۔
عجیب ملک ہے۔ یہاں وزیر اعظم کے ملک سے جانے کی خبر نہیں بنتی، حافظ صاحب کے بیرونی دوروں کا بس سرگوشیوں میں ذکر ہوتا ہے۔ حتیٰ کہ عدلیہ جس کے لاکھوں مقدمات فیصلے کے منتظر ہیں اس کے ججز کی چھٹیوں پر کوئی معترض نہیں ہوتا لیکن نواز شریف کے ملک سے باہر جانے کی خبر بہت رش لیتی ہے۔
یوٹیوبرز کی چاندی ہو جاتی ہے، لکھاریوں کے ہاں عید کا سماں ہوتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ نواز شریف فرار ہو گیا۔ کوئی ’کرپشن کا مجرم فرار‘ ٹائپ کا تھبنیل بنا کر ویوز لیتا ہے۔ کوئی کالم میں غصہ نکالتا ہے۔ تاثر یہ دیا جاتا ہے جیسے نواز شریف خزانے کی چابی لے کر فرار ہو رہے ہیں یا اس عمر میں کوئی پکنک کا شوق چرایا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اس تنقید سے میاں صاحب کو فرق نہیں پڑتا مگر بہت سے لوگوں کے لیے رزق کا دروازہ نواز شریف پر تنقید سے ہی کھلتا ہے۔
نواز شریف کی مرضی ہے وہ جس ملک چاہیں جائیں، یہ ان کا اپنا اختیار ہے۔ نہ ان کے پاس کوئی سرکاری عہدہ ہے نہ بیرونی دوروں کے لیے کبھی انہوں نے سرکاری خزانے سے ایک پیسہ بھی لیا ہے۔ اب وہ جھنجھٹوں سے آزاد ہو چکے ہیں ۔ بہت کچھ دیکھ چکے ہیں ۔ بہت کچھ سہہ چکے ہیں۔ دوستوں کی بے وفائیاں ، اسٹیبلشمنٹ کی کاروائیاں ،حکومتوں کا آنا جانا ، عہدے اقتدار سب کچھ انکی نگاہوں کے سامنے سے گزر چکا ہے۔ اب وہ کچھ مزید کی تمنا نہیں رکھتے۔ نہ ملاقاتیں کرتے ہیں نہ زیادہ باتیں کرتے ہیں۔ ایوان میں ہی نہیں جاتی امرا میں بھی خاموش رہتے ہیں۔
نواز شریف جہاں بھی جائیں ان کی مرضی مگر انہیں لندن نہیں جانا چاہیے۔ علاج لازمی بھی ہو تو ان زخموں کو ادھیڑنا نہیں چاہیے۔ وہ زخم جو ان کی عقوبت کے دنوں میں ان کی اہلیہ کے انتقال سے ان کے سینے پر لگے۔ وہ زخم جو لندن کی گلیوں میں چیرٹی پر پلنے والے احتجاجیوں کی غلیظ زبان نے ان کو پہنچائے۔ وہ زخم جو پی ٹی آئی کے ایک ڈاکٹر نے بستر مرگ پر کلثوم نواز کی بیماری کی تصدیق کے لیے پہنچائے۔ وہ زخم جو پاکستانی میڈیا نے غیر اخلاقی اور غیر انسانی رپورٹنگ سے غم کے ان دنوں میں پہنچائے۔
اب جب نواز شریف لندن جائیں گے تو حالات بدل چکے ہوں گے۔ برادر خورد وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ سمدھی نائب وزیراعظم تعینات ہوئے ہیں، بیٹی پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ کی وزیر اعلیٰ بن چکی ہیں۔ لیکن نواز شریف کے زخم مندمل نہیں ہو رہے ہیں۔
بیگم صاحبہ کے بغیر انہیں قرار نہیں آ رہا، یاسیت ان پر مسلسل طاری ہے۔ گفتگو اب مفقود ہو گئی ہے۔ غم اور خوشی میں تفریق جاتی جا رہی ہے۔ لیکن میڈیا کو اس الم سے کوئی غرض نہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ عاصم باجوہ کے لگائے ہوئے میڈیا میں نواز شریف پر تنقید زیادہ ریٹنگ لیتی ہے۔ مفرور، کرپٹ اور چور ڈاکو کے ’کی ورڈ‘ زیادہ بکتے ہیں۔ بے ضمیر اینکر اور زرخرید تجزیہ کار اب بھی عمران خان کی توصیف کا موقع ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں۔
یہ سماج ہمیشہ بڑے لوگوں کو خراج دینے میں ناکام رہا ہے۔ احسان فراموشوں کے اس عہد میں نواز شریف کو کسی سے کوئی توقع بھی نہیں، شکوہ بھی نہیں۔