محترمہ بشریٰ بی بی کی رہائی پی ٹی آئی کے لیے اچھی خبر یا بُری؟

جمعہ 25 اکتوبر 2024
author image

عبیداللہ عابد

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سابق خاتون اول محترمہ بشریٰ بی بی بالآخر نو ماہ بعد جیل سے رہا ہوکر پہلے بنی گالہ اور پھر وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور پہنچ گئیں۔ ان کی رہائی تحریک انصاف کے لیے اچھی خبر بھی ہے اور بری بھی۔ بھلا کیسے؟ اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے ایک منظرنامہ دیکھ لیجیے۔

تحریک انصاف کے بعض رہنما اپنے کارکنان کو اکھیوں ہی اکھیوں میں کہہ رہے ہیں کہ دیکھا، ہم کہتے تھے نا! کہ ہماری بات ہوچکی ہے۔ تحریک انصاف کے یہ لوگ پچھلے کئی ماہ سے یہ دعوے کر رہے تھے۔ البتہ پاکستان تحریک انصاف کے تادم تحریر چیئرمین جناب بیرسٹر گوہر خان کہتے ہیں کہ بشریٰ بی بی کی رہائی میرٹ پر ہوئی ہے، ڈیل کرنا ہوتی تو وہ نو ماہ جیل میں نہ رہتیں۔

بیرسٹر گوہر خان خاصے شریف آدمی ہیں۔ اگرچہ وہ پارٹی چیئرمین ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جناب عمران خان اور محترمہ بشریٰ بی بی کے جیل میں قید ہونے کے سبب پاکستان کے سب سے بڑے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان کے پوتے عمر ایوب ہی تحریک انصاف کے مدارالمہام بنے ہوئے تھے۔

انہوں نے  کبھی بیرسٹر گوہر خان کو تصویر کا مرکزی کردار بننے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ہمیشہ انہیں کہنی مار کر نکڑ میں کھڑا کردیا۔ چاہے کوئی پریس کانفرنس ہو یا پھر قومی اسمبلی کا ایوان۔ البتہ عمران خان سے گالیاں کھانے کا موقع آیا تو عمر ایوب نے گوہر خان کو آگے کردیا۔

اب جبکہ محترمہ بشریٰ بی بی رہائی کے بعد وزیراعلیٰ ہاؤس پشاور پہنچ چکی ہیں، لوگ سوچ رہے ہیں کہ ان کی رہائی کے تحریک انصاف کی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟

پہلا اثر جاننے سے پہلے  یاد رکھنا ضروری ہے کہ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے بارے میں ہزار داستانیں زبان زد عام ہیں کہ وہ ’اوپر‘ والوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ایسی کہانیاں بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ اگر وہ رابطے میں نہ رہتے تو وہ وزارت اعلیٰ کے منصب پر کیسے رہ سکتے تھے بھلا!

سردار علی امین گنڈاپور کے ’اوپر‘ والوں سے رابطوں کا سب احوال تحریک انصاف کے سب قائدین پر بھی واضح ہے، بالخصوص جب انہیں اچانک کہیں ’حاضر‘ ہونے کا حکم ملتا ہے اور پھر سردار آف گنڈاپور اچانک غائب ہوتے ہیں، گھنٹوں مسنگ رہتے ہیں، پھر اچانک ظہور پذیر ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ میں ادھر کے پی ہاؤس ہی میں تھا تو تحریک انصاف کے یہ سب یار دوست بغل میں منہ دے کر کھی کھی کرتے ہیں۔ اس کے باوجود گل خان سادہ لوحی والی بات کہہ جائے تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ

جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے

ممکن ہے کہ بیرسٹر گوہر خان کو خبر ہی نہ ہو کہ بشریٰ بی بی کو رہائی سے پہلے اچھی طرح سمجھا بجھا دیا گیا ہے کہ اب انھیں کیسی زندگی بسر کرنی ہے۔ ممکن ہے کہ وہ یہ بھی نہ جانتے ہوں کہ اب بشریٰ بی بی پارٹی کو چلائیں گی لیکن اس انداز میں چلائیں گی کہ پس پردہ  خود بھی غیر سیاسی رہیں گی اور ان کے رابطے بھی ان لوگوں کے ساتھ رہیں گے جن کا دعویٰ ہے کہ ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ بشریٰ بی بی کی تمام تر کوششوں کا محور و مرکز شوہر کی رہائی ہوگی۔ وہ کچھ بھی ایسا نہیں کرنا چاہیں گی جس کے نتیجے میں اس مقصد کا حصول کھٹائی میں پڑ جائے۔ یوں تحریک انصاف اب مزید اچھی طرح ’قابو‘ میں رہے گی۔

محترمہ بشریٰ بی بی کی رہائی کے بعدپی ٹی آئی کی ’اول‘ درجے کے قائدین دوسرے درجے میں پہنچ جائیں گے جو عمران خان سے بالا بالا  فیصلے کرنے میں لگے ہوئے تھے۔ اس کا عمران خان کو ادراک ہو یا نہ ہو، محرترمہ بشریٰ بی بی کو خوب ہے۔ کہا جاتا ہے کہ گزشتہ روز جب عمر ایوب محترمہ کے سامنے حاضر ہوئے تو انھیں سابق خاتون اول سے کھری کھری سننا پڑیں۔

اس سے پہلے عمر ایوب خان پارٹی پر قبضہ کیے بیٹھے تھے، وہی اڈیالہ جیل کے گیٹ پر پہرے دار بنے ہوئے تھے، وہی فیصلہ کرتے تھے کہ کس پی ٹی آئی لیڈر کو خان صاحب سے ملنے دینا ہے اور کس کو بے عزت کرنا ہے۔ لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔

اب یہ سارے فیصلے بشریٰ بی بی کے اذن سے ہوں گے، اور جسے بی بی کی خادمائوں تک رسائی مل گئی، اس کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔

الغرض بشریٰ بی بی کی رہائی سے تحریک انصاف کا پورا کلچر تبدیل ہوجائے گا۔ کم از کم عمران خان کی رہائی تک مفاہمانہ کلچر ہی رہے گا۔ اسی لیے عمران خان کی رہائی کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں۔بلکہ دور دور تک کوئی امکان نہیں۔

بشریٰ بی بی کی رہائی سے تحریک انصاف پر ایک برا اثر بھی پڑ سکتا ہے۔ شاید جلد ہی عمران خان کی ہمشیرگان علیمہ خان اور عظمیٰ خان کو بھی رہا کردیا جائے۔ اس کے بعد کیا ہوگا، اندازہ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔

ہمارے معاشرے میں نند اور بھابھی ایک صفحہ پر نہیں رہتیں۔ عمران خان کی گرفتاری کے بعد خان صاحب کی بہنوں بالخصوص علیمہ خان اور بشریٰ بی بی کے مابین کشمکش دیکھنے کو ملی تھی۔ تاہم علیمہ خان کو اس وقت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا، جب اس جھگڑے میں ان کے بھائی نے بیوی کے پلڑے میں وزن ڈال دیا۔

یہ صرف ایک آدھ واقعہ نہیں ہے، بارہا نند بھابھی میں سرد یا گرم جنگ ہوئی۔ علیمہ خان  بھی کہاں ہار ماننے والی تھیں۔ آخر وہ بھی عمران خان کی بڑی بہن تھیں۔ وہ بشریٰ بی بی کے مقابل ہی رہیں۔

آنے والے دنوں میں اس کشمکش کے زیادہ مظاہر دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ علیمہ خان شکوہ کر سکتی ہیں کہ بشریٰ بی بی ان کے بھائی کی رہائی کے بجائے پارٹی پر کنٹرول قائم کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔ اس کے بعد جوتوں میں جو دال بٹے گی، وہ پی ٹی آئی ورکرز کو خاصا مایوس کردے گی۔ تب  کسی  پی ٹی آئی لیڈر میں بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کو سمجھانے کی ہمت نہیں ہوگی کہ مت لڑیں، جگ ہنسائی ہو رہی ہے۔

ممکن ہے کہ پی ٹی آئی والے اس ممکنہ سچویشن کو خواہش اور خواب قرار دیں۔ تاہم انہیں خبردار رہنا ہوگا کہ ایسا ہوسکتا ہے اور اس ہوسکنے کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ ایسا ویسا ہوجائے تو پھر تحریک انصاف والوں کو آج کی یہ باتیں یاد آئیں۔ لیکن اس وقت چڑیاں کھیت چُگ چکی ہوں گی، پچھتانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دودھ اُبل کر فرش پر گر چکا ہوگا، اور پھر رونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp