کافی سال پہلے برطانوی سرمایہ کاروں کا ایک وفد پاکستان میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر رہا تھا۔ اپنے دورے کے آخری حصہ میں لاہور میں ان کے ساتھ کچھ تبادلہ خیال ہوا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ پاکستان میں کاروبار شروع یا جاری رکھنے میں انہیں کس قسم کی دشواریوں کے بارے میں کیا آگاہی ہوئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ باقی سب ‘حصہ داروں’ کا کوئی مسئلہ نہیں مگر سب سے بڑا خطرہ انہیں پاکستان کی عدلیہ سے ہے، کیونکہ باقی تمام سے کسی نہ کسی نمٹا جا سکتا ہے مگر عدلیہ تو انہیں سال ہا سال عدالتوں میں گھیسٹنے کے ساتھ ان کے معاہدے ہی منسوخ کردیتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ اپنا عدالتی نظام ٹھیک کرلیں تاکہ وہ بلاوجہ کسی سرمایہ کار کو تنگ نہ کریں تو بڑی بڑی کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
اب یہ کہنا کہ پاکستان کاروبار دوست ملک ہے؟ کوئی کیسے سچ مان لے؟ ایسا ملک جہاں سچ بولنے والے کو بے وقوف اور جھوٹے کو چالاک ہوشیار مانا جائے اور جہاں بچے اپنے اردگرد خاندان کے ہر فرد کو جھوٹ بولتے دیکھ رہے ہوں وہاں کون سچ بولے گا۔ جو سچ بولنے پر مصر ہوگا اسے گھر سے لے کر ریاست تک رکاوٹوں ہی رکاوٹوں کا سامنا رہے گا۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں ڈیم فنڈ کا منصوبہ بنایا گیا یہ سوچ کر کہ جلد عمران خان کی حکومت بننے جا رہی ہے ایسے منصوبے کے لیے فنڈز اکٹھے کرنا کوئی مشکل نہیں ہوگا۔ ڈیم فنڈ قائم ہو گیا۔ خوب تشہیر بھی کی گئی مگر امید کے برعکس اتنے پیسے اکاؤنٹ میں جمع ہوئے کہ انہیں اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ پھر فوج نے اپنے تمام افسروں کی دو دن کی تنخواہ اور جوانوں کی ایک دن کی تنخواہ کی صورت اپنا حصہ ڈالا۔ سرکار نے بھی فوج کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایسا ہی قدم اٹھایا۔ عمران خان کی حکومت بھی بن گئی مگر خاطر خواہ رقم جمع نہیں ہو پا رہی تھی۔ پھر سرکار نے بڑے بڑے سرمایہ کاروں اور کمپنیوں کو زور بازو مجبور کیا کہ وہ اس ‘نیک کام’ میں حصہ ڈالیں ورنہ!!!
یہ سلسلہ کسی دور میں رکا نہیں۔ کاروبار کرنے والوں کو ہمیشہ بری نظروں سے دیکھا گیا۔ سرکاری افسران اور ملازمین ہمیشہ سے کاروباری افراد کی ترقی سے جلتے رہے اور کسی نہ کسی طریقے ان کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے رہے ہیں۔ مقتدرہ ہو یا عدلیہ کسی نے بھی کاروباری افراد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا۔ جس کو جہاں موقع ملا اس نے اپنی ‘دیہاڑی’ لگائی۔ اسی طرح کاروباری افراد بھی سرکار کی ‘دیہاڑی’ سے اپنے کاروبار کو جائز ناجائز ہر طریقے سے وسعت دیتے رہے۔ غریب عوام کے ٹیکس کا پیسہ لوٹ مار کی نذر ہوتا رہا اور اب بھی جاری ہے۔
سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ عدلیہ نے بھی اس لوٹ مار میں خوب حصہ ڈالا۔ اس کا خوب فائدہ اٹھایا اور بڑے بڑے کاروباری افراد سے لے کر پراپرٹی مافیا تک کسی کو نہ بخشا۔ پراپرٹی مافیا نے اپنی سکیموں کو تحفظ دینے کے لیے ہر حد پار کردی۔
سیاسی حکومتوں کے منصوبوں میں کرپشن اور کمیشن کا واویلا ڈال کر انہی عدالتوں نے ریکو ڈیک، اور رینٹل پاور کے منصوبوں کو ختم کرایا۔ پاکستان کو بدنام کیا گیا کہ یہاں کاروبار کو تحفظ حاصل نہیں۔ پاکستان کو ایسے بھاری بھرکم جرمانے ہوئے کہ پاکستان جیسے معاشی بدحالی کے شکار ملک کے لیے ان کی ادائیگی ہی مشکل ہو گئی۔
کاروباری افراد کے لیے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ جب پاکستان کے مقامی سرمایہ کار بے یقینی، جسٹس ثاقب نثار کی مہربانیوں سمیت لاتعداد سرکاری اداروں کے دباؤ کی وجہ سے اپنے کاروبار بیرون ملک منتقل کرنے لگیں تو کیسے بین الاقوامی سرمایہ کار پاکسان میں کاروبار شروع کریں گے۔
المیہ یہی ہے کہ عام آدمی یا نوجوان کاروبار کرنے سے گھبراتے ہیں کہ ایسی تمام رکاوٹوں سے کیسے نمٹیں گے۔ آج بھی پاکستان کاروبار شروع کرنے والی عالمی رینکنگ میں بہت پیچھے ہے۔