ہمارے ملک کا نظام جب کام کرنے پر آتا ہے تو ریکارڈز بنتےہیں۔ ان مخصوص اوقات کے علاوہ ہمارا نظام بھی ہماری طرح دائمی کاہلی کا شکار رہتا ہے۔ کاہلی ایسی کہ اس وقت عدالتوں میں لاکھوں مقدمات التوا کا شکار ہیں جن کے نمٹائے جانے کی مستقبل قریب میں بھی امید نہیں۔ کبھی کبھار جب نظام کام کرنے پر آئے تو کسی شخص کے خلاف ایک ہی دن ملک کے مختلف علاقوں اور تھانوں میں درجنوں مقدمات بن جاتے ہیں۔ کاہلی پر آئے تو انصاف کے حصول کے لیے بال سفید ہو جائیں گے مگر انصاف نہیں ملے گا۔ یہی نظام اچانک انگڑائی لیتا ہے اور سینکڑوں مقدمات کے مجرم کو رہائی مل جاتی ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ہمارا نظام اکثر سویا ہی رہتا ہے جسے ضرورت کے تحت فعال بنانے کے لیے چابی لگائی جاتی ہے۔ ہم کہی گئی باتوں کو کسی سے نا جوڑیں تو بہتر ہے مگر پاکستان کے سیاسی میدان میں سیاست کم اور کھیل زیادہ کھیلے جاتے ہیں۔ کھیل سے یاد آیا کہ جیتتا صرف وہی ہے جس کے ہاتھ میں چابی ہے، باقی ہم تماش بینوں کے لیے بس شغل لگا رہتا ہے۔
ابھی دو تین دن کی بات ہے، سابق وزیر اعظم عمران خان کی زوجہ کو اچانک رہائی نصیب ہوتی ہے، روبکار بھی فوری مل جاتا ہے اور ان کو محفوظ گڑھ (پختونخوا) بھیج دینے کی خبر بھی سامنے آتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ محترمہ خیبرپختونخوا کے بجائے اسلام آباد ہی میں مقیم رہے لیکن تحریک انصاف کے کارکنوں کو یہ یقین ضرور دلایا جاتا ہے کہ پختونخوا محفوظ ہے اور وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے۔ حالانکہ ابھی کل ہی ایک نیا سرکاری ہدایت نامہ جاری ہوا ہے کہ صوبے کے کئی اضلاع میں سرکاری اہلکاروں کی موومنٹ پر پابندی رہے گی یا پھر احتیاطی تدابیر اختیار کرنی پڑیں گی، جس کا مطلب یہ ہوا کہ خیبرپختونخوا میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت نہیں ہے۔
خیبرپختونخوا کے محفوظ ہونے سے یاد آیا کہ یہ بھی صرف تحریک انصاف کی لیڈرشپ کے لیے محفوظ ہے، عوام اس وقت تاریخ کے بدترین حالات کا سامنا کررہی ہے لیکن ہمارے کہنے سے کون سا حالات بدل جانے ہیں۔ مگر بشریٰ بی بی اور ساتھ خان کی دونوں بہنوں کی ضمانت کے بعد چیزوں کو شک کی نگاہوں سے دیکھنا فطری عمل ہوگا کیونکہ اس ملک میں ہمیشہ یہی ہوا ہے کہ ایسے مقدمات مرضی سے حل ہوتے ہیں اور رہائی بھی تب ملتی ہے جب طاقتوروں کی مرضی ہو، ورنہ سسٹم خواب غفلت میں ہی رہتا ہے۔
اس وقت بعض حلقے بشریٰ بی بی اور خان کی بہنوں کی رہائی کو کسی خفیہ ڈیل کا نتیجہ مان رہے ہیں اور خود پی ٹی آئی کے باہر ممالک میں بیٹھے سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اس کو عدالتی انصاف ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ البتہ پی ٹی آئی کے ان اعلیٰ دماغ لوگوں کا ماننا ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان کے دباؤ کے اثرات دکھنا شروع ہو گئے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی ایوانِ نمائندگان نے بشریٰ بی بی کی رہائی کی بات ہی نہیں کی تو پھر خان کے بجائے بشریٰ بی بی کو رہائی کیوں دی گئی؟
اس حوالے سے بعض جانکار یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ڈیل نہیں، البتہ ڈھیل ضرور ہے اور آگے کے حالات خان صاحب کے کردار پر منحصر رہیں گے کہ وہ مزاحمت کی طرف جانا چاہتے ہیں یا مفاہمت کی طرف۔ کسی نے بھی یہ بات نہیں کی کہ مقدمات کا حل قانون یا میرٹ کے مطابق سامنے آیا ہے۔
چلیں مان لیتے ہیں کہ یہ کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں ہے اور صرف ڈھیل ہی ہے۔ اس دلیل کو ماننے کے لیے ہمیں ہماری تاریخ کو ٹٹولنا پڑے گا۔ کیا ہمارے ہاں طاقتور طبقات کے ساتھ پھڈا ہونے کی صورت میں کبھی کسی کو مفت ڈھیل ملی ہے؟ ذوالفقار علی بھٹو کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ حالانکہ میں بانی پی ٹی آئی کا موازنہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ کرنے کا ہرگز قائل نہیں ہوں کیونکہ بھٹو ایک لیڈر تھا جو نظام کو چلانے کی بہترین اہلیت رکھتا تھا، جبکہ عمران خان صاحب خود مان چکے ہیں کہ وہ جب حکومت میں تھے تو ان کے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں تھا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ خان صاحب نے ان اعترافات کے وقت اس بات پر تھوڑی سی بھی پشیمانی کا اظہار نہیں کیا کہ وہ کرسی سے تو چمٹے رہے لیکن اختیارات سے دستبرداری قبول کی تھی۔
مندرجہ بالا باتوں کے اصولی نقاط کو پس پشت ڈال کر ہم یہ سوچ سکتے ہیں کہ اس وقت ملک کو استحکام کی اشد ضرورت ہے اور ایسی صورت میں کئی باتوں کو قبول کیا جا سکتا ہے۔ لیکن کیا پی ٹی آئی اس وقت ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ سیاسی استحکام کی خاطر اپنے سیاسی مفادات پر ملکی مفادات کو ترجیح دیں سکے؟
خان صاحب کی گزشتہ کئی سالوں کی سیاسی زندگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ اپنی ذات اور اپنے سیاسی مفادات کے سامنے کسی چیز کو ضروری نہیں سمجھتا۔ لیکن اس وقت خان صاحب لاڈلہ بالکل بھی نہیں رہا تو ایسی صورت میں وہ چیزوں کو سمجھ کر آگے بڑھنے کا فیصلہ کر سکتا ہے۔ مگر ہمیں یہ بات بھی دیکھنی ہے کہ اس وقت تحریک انصاف اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کی شکار ہے۔ دستیاب لیڈرشپ ایک دوسرے پر انگلی اٹھا رہی ہے جبکہ پاکستان سے باہر رہنے والے کارکنوں اور سوشل میڈیا انفلونسرز نے الگ سے اپنی ڈیڑھ انچ کی مسجد بنا لی ہے جس کو وہ آسانی سے نہیں چھوڑیں گے۔ سو اس کے باوجود کہ خان کا فالور خان کے ہر کام کو پتھر پر لکیر سمجھتا ہے، مشکلات پھر بھی رہیں گے۔