بغیر اجازت دوسری شادی پر پہلی بیوی شوہر کے ساتھ شادی ختم کرسکتی ہے، سپریم کورٹ

منگل 29 اکتوبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان نے قرار دیا ہے کہ اگر خاوند پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کرتا ہے تواس کی بنیاد پر پہلی بیوی اپنے شوہر کے ساتھ شادی کا معاہدہ ختم کرسکتی ہے۔ عدالت نے ماتحت عدالتوں کی جانب سے شوہر کے مظالم اور خلع کی بنیاد پر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی کے حوالہ سے دیے گئے فیصلے کالعدم قرار دیتے ہوئے شوہر کی جانب سے پہلی بیوی کی موجودگی میں دوسری شادی کرنے پر پہلی بیوی کے شادی ختم کرنے کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ میاں بیوی کے درمیان شادی ختم ہوچکی ہے۔

ٹرائل کورٹ کی جانب سے درخواست گزار اور مدعا علیہ کے درمیان ازدواجی تعلقات کی بحالی کے حوالہ سے حکم برقرار نہیں رکھا جاسکتا۔ سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ٹرائل کورٹ کی جانب سے حق مہر، جہیز کے سامان، خرچ کی ادائیگی اور بچے سے ملاقات کے حوالہ سے دیے گئے شیڈول کے حوالہ سے فیصلہ برقرار رہےگا۔

مزید پڑھیں:خلع کی خواہش پر بیٹی کی ٹانگیں توڑنے والا باپ گرفتار

عدالت نے قرار دیا ہے کہ قانونی طور پر شادی کا کنٹریکٹ ختم کرنے کے حوالہ سے بہت سے طریقے دیے گئے ہیں۔ بنیادی طریقہ یہ ہے کہ خاوند اپنی بیوی کو طلاق دے اور اگر بیوی کو اس کا اختیار دیا گیا ہے تو وہ بھی اس حق کا استعمال کرسکتی ہے۔ ہائیکورٹ آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ان سوالوں کے حوالہ سے فیصلہ نہیں کرسکتی جن میں حقائق کے تعین کے لیے شہادت ریکارڈ کرنا درکار ہو۔

جسٹس سید منصورعلی شاہ کی سربراہی میں جسٹس جمال خان مندوخیل اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے ڈاکٹر فریال مقصود اور دیگر کی جانب سے خرم شہزاد درانی اور دیگر کے خلاف دائر درخواست پر 3 مئی 2024 کو سماعت کی تھی۔ درخواست گزار کی جانب سے وسیم الدین خٹک اور مدعا علیہ نمبر ایک کی جانب سے بیرسٹر عمر اسلم خان بطور وکیل پیش ہوئے تھے۔

کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا گیا ہے۔ 18 صفحات پر مشتمل کیس کا تحریری فیصلہ جسٹس اطہر من اللہ نے تحریر کیا ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار ڈاکٹر فریال مقصود اور مدعا علیہ خرم شہزاد درانی نے پشاور ہائیکورٹ کے 4 مارچ 2019کے فیصلے کے خلاف درخواستیں دائر کی ہیں۔ دونوں کی شادی 10 ستمبر2007 کو ہوئی اور بعد میں 18 دسمبر 2008 کوان کے ہاں بیٹے کی پیدائش ہوئی جس کانام اسد اللہ درانی رکھا گیا۔

مزید پڑھیں:شعیب ملک سے خلع لینے کے بعد پہلی مرتبہ ثانیہ مرزا نے اپنی تصویر انسٹاگرام پر شیئر کردی

مادی جھگڑوں کی وجہ سے دونوں کی زندگی اجیرن بن گئی تھی جس کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان 2012 میں علیحدگی ہوگی۔ درخواست گزار خاتون نے 28 جولائی 2012 کو نکاح نامہ میں درج حق مہر کی ادائیگی اور جہیزکے سامان کی واپسی کامطالبہ کیا۔ دعویٰ میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ شوہر کی جانب سے زبانی طلاق دینے کے بعد دونوں میں طلاق ہوچکی ہے۔

مدعا علیہ نے دعویٰ کے خلاف اپنا جواب جمع کروایا اور طلاق دینے سے انکار کیا تاہم نکاح نامہ میں درج حق مہر سے انکار نہیں کیا۔ مدعا علیہ نے مؤقف اختیار کیا کہ 50 تولہ سونا اور 5 لاکھ روپے نکاح کے وقت ہی درخواست گزار خاتون کو اداکر دیے گئے تھے تاہم گھر میں حصہ دینے کے معاملہ سے انکار نہیں کیا گیا۔

درخواست گزار نے استدعا کی خاتون کے ساتھ ازوداجی تعلقات بحال کرنے کا حکم دیا جائے کیونکہ اس نے خاتون کو طلاق نہیں دی اور دونوں کی شادی اب بھی برقرار ہے۔ ٹرائل کورٹ نے 9 ایشوز فریم کیے۔ یہ ایشو بھی فریم کیا گیا کہ آیا دونوں کے درمیان طلاق ہوچکی ہے اور مدعا علیہ کے حق میں ازدواجی تعلقات کی بحالی کے حوالہ سے حکم جاری کیا جائے۔ ٹرائل کورٹ نے 29 مئی 2014کو جزوی طور پر دعویٰ ڈگری کردیا۔

مزید پڑھیں:امریکا میں نکاح، پاکستان میں خلع: سپریم کورٹ نے کیس کا تحریری حکمنامہ جاری کردیا

درخواست گزار خاتون کے حق میں 5 لاکھ روپے ادائیگی اور گھر میں حصہ دینے یا متبادل طور پر نکاح نامہ میں تعین کردہ قیمت کے حوالہ سے تھی۔ تاہم عدالت کی جانب سے 50 تولے حق مہر کی ادائیگی کا دعویٰ خارج کردیا گیا۔ عدالت نے جہیز کے سامان کی ریکوری کا دعویٰ بھی جزوی طور پر ڈگری کردیا جس میں 51 تولے سونا بھی شامل تھا۔ جبکہ عدالت نے بچے کے خرچ کی ادائیگی کے حوالہ سے بھی حکم جاری کیا۔ عدالت نے ازدواجی تعلقات کی بحالی کا بھی حکم دیا تاہم قرار دیا کہ یہ حق مہر کی فوری ادائیگی سے مشروط ہوگا۔

فریقین نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج پشاور 5 کی عدالت میں چیلنج کیا جن کا فیصلہ 29 فروری 2016 کو کیا گیا۔ اپیلوں کی سماعت کے دوران مدعا علیہ نے دوسری شادی کرلی اس بنیاد پر شادی ختم کرنے کے لیے الگ درخواست دائر کی گئی۔ درخواست گزار خاتون کی جانب سے مؤقف اختیار کیا گیا کہ مسلم فیملی لاز آرڈیننس، 1961کی شقوں کی خلاف وزری کرتے ہوئے دوسری شادی کرنا ڈیزولویشن آف مسلمز میریجز ایکٹ 1939 کا سیکشن 2 شادی کی تنسیخ کی وجہ فراہم کرتا ہے۔

ایپلٹ کورٹ کی جانب سے اضافی بنیاد پر غور کیا گیا جو فیصلہ سے واضح ہے۔ تاہم ایپلٹ کورٹ نے خلع کی بنیاد پر شادی ختم کرنے کا حکم دیا۔ ایپلٹ کوررٹ نے خلع کی بنیاد پر حق مہر کے 50 تولے جہیز میں آنے والے 50 تولے سونے کے ساتھ ایڈجسٹ کرنے کا حکم دیا۔ مدعا علیہ نے اپیلٹ کورٹ کا فیصلہ ہائیکورٹ میں چیلنج نہیں کیا تاہم درخواست گزار نے آئین کے آرٹیکل 199کے تحت ہائیکورٹ کا غیر معمولی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ چیلنج کیا۔

مزید پڑھیں:عورت مارچ خلع کی شرح میں اضافے کا سبب ہے، نازش جہانگیر

ہائیکورٹ نے 4 مارچ 2019 کے فیصلہ کے ذریعے درخواست منظور کرلی۔ جبکہ ہائیکورٹ نے خلع کی بنیاد پر شادی ختم کرنے کا ایپلٹ کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔ تاہم ہائیکورٹ نے میاں بیوی کے درمیان ظلم وستم کی بنیاد پر شادی ختم کرنے کا حکم دیا اور ٹرائل کورٹ کی جانب سے حق مہر اور جہیز کے سامان کی ریکوری کے حوالہ سے جاری حکم بحال کردیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے فیصلے میں لکھا ہے کہ ہم نے فریقین کے وکلاء کو تفصیل سے سنا اور ان کی جانب سے تحریری گزارشات بھی جمع کروائی گئی ہیں۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار خاتون یہ ثابت نہیں کرسکی تھی کہ مدعا علیہ نمبر 1نے اسے زبانی طور پر طلاق دے دی ہے اس لیے ٹرائل کورٹ نے ازدواجی تعلقات کی بحالی کا حکم دیا تاہم ایپلٹ کورٹ نے ڈگری میں ترمیم کرتے ہوئے قرار دیا کہ خلع کی بنیاد پر میاں بیوی کے درمیان علیحدگی ہوچکی ہے جبکہ ایپلٹ کورٹ نے اس نکتہ کے حوالہ کوئی فیصلہ نہیں دیا کہ آرڈیننس 1961 کی شقوں کے تحت بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی کی جاسکتی ہے کہ نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp