’کہتے ہیں ناکہ جسے الله رکھے اسے کون چکھے ۔ ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ حنیفہ نے پستول کا نشانہ ٹیپو پر لگایا لیکن ٹیپو کے بڑے بیٹے امیر بالاج اس کی گود میں پایا گیا تو حنیفہ نے بالاج کو دیکھ کر اپنا نشانہ لینے سے خود کو روک لیا کیونکہ حنیفہ کے مطابق اس کی دشمنی ٹیپو سے تھی نہ کہ اس کی گود میں ننھی جان سے۔۔۔۔‘
ٹیپو نے پہلے بھولا سنیارا اور پھر ناجی بٹ اور ہمایوں گجر کو انسپکٹر نوید کی مدد سے لاہور کے علاقے شاہدرہ میں پولیس مقابلے میں گولیوں سے چھلنی کروا دیا، ٹیپو نے نہ تو طیفی بٹ کے قریبی دوست داؤد ناصر کو بخشا اور نہ ہی ثنا گجر کو۔ ایک ایک کر کے سب کو موت کی نیند سلا دیا۔
بلا ٹرکاں والا کے قتل کے بعد اس کی گدی پر بیٹھے ٹیپو ٹرکاں والا اب شاہ عالم میں خوف کی علامت بن چکا تھا۔ لوگ ٹرکاں والا اڈے کا رخ کرنے سے بھی خوف کھاتے تھے ۔ شیروں کے شوقین ٹیپو ٹرکاں والا شیر کی طرح دشمنوں پر دھاڑتے تھے۔ اس لیے خوف کے مارے عام آدمی بھی شاہ عالم چوک سے انتہائی خوفزدہ ہو کر گزرتے تھا۔
گینگ وار نے ایسا سر اٹھایا کہ بڑے بڑے اشتہاریوں سے لے بڑے بڑے پولیس افسران بھی اس گینگ وار کا حصہ بنتے چلے گئے، یہ وہی دور تھا جب انسپکٹر عابد باکسر انکاؤنٹر پر انکاؤنٹر کر کے ایک ایک اشتہاری کو جہنم واصل کررہا تھا اور آئے روز سرخیوں کی زینت بن رہا تھا۔ اب بات صرف جہاں ابھی تک اشتہاریوں تک محدود نہ رہی بلکہ ان کی خواتین تک جا پہنچی۔
جہاں ٹرکاں والا خاندان اور طیفی بٹ کے گھر کی خواتین اس گینگ وار سے محفوظ تھیں وہیں اب مزید محفوظ رہنا ناممکن ہو گیا تھا کیونکہ ٹیپو نے اب ایک الگ حکمت عملی تیار کی اور اس کے تحت بابا اور حنیفہ کے گھر کی خواتین کو اغوا كروا ليا۔ اغوا کی واردات کے بعد بابا اور حنیفہ جیسے پاگل ہو گئے اور بوکھلائے ہوئے شیروں کی طرح ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ کیونکہ اب بات گھر تک پہنچ چکی تھی اور ٹیپو ٹرکاں والا کا ہاتھ اب گریبان سے ہٹ کر گھر کی خواتین پر آگیا تھا جو کہ بابا اور حنیفہ کے لیے کسی بھی قدر قابل قبول نہیں تھی۔
کہا جاتا ہے کہ جب بات عزت پر آجائے تو پھر جنگ لازم ہو جاتی ہے۔ جنگ تو پہلے ہی چل رہی تھی لیکن اس کو مزید ہوا ٹیپو کی جانب سے دی گئی بلا ٹرکاں والے سے بدلہ لینے کے بعد اب بابا اور حنیفہ نے ٹیپو کو بھی ٹھکانے لگانے کی ٹھان لی اور 2003 میں لاہور کچہری کے باہر ٹیپو ٹرکاں والا پر مبین بٹ کے ذریعے قاتلانہ حملہ کروایا گیا۔ فائرنگ کے نتیجے میں ٹیپو شدید زخمی ہوا جبکہ اس کے 5 محافظ مارے گئے۔
یہ کوئی آخری حملہ نہیں تھا جو بابا اور حنیفہ نے ٹیپو پر کیا،متعدد حملوں کے باوجود بابا اور حنیفہ کو کامیابی حاصل نہ ہوئی اور ٹیپو ہمیشہ کی طرح بچ نکلتا۔ کہتے ہیں ناکہ جسے الله رکھے اسے کون چکھے ۔ ایک موقع تو ایسا بھی آیا کہ حنیفہ نے پستول کا نشانہ ٹیپو پر لگایا لیکن ٹیپو کے بڑے بیٹے امیر بالاج اس کی گود میں پایا گیا تو حنیفہ نے بالاج کو دیکھ کر اپنا نشانہ لینے سے خود کو روک لیا کیونکہ حنیفہ کے مطابق اس کی دشمنی ٹیپو سے تھی نہ کہ اس ننھی جان سے جو اس کی گود میں کھیل رہی تھی۔
دشمنی کا زور جب عروج پر آگیا اور متعدد حملوں میں بال بال بچنے کے بعد ٹیپو کو اپنے گھر والوں کی فکر ستانے لگی کیونکہ دشمنی کی آگ ٹیپو کے چاروں اطراف جل رہی تھی جس کی تپش سے اب ٹیپو کو گھبراہٹ شروع ہو گئی تھی۔ ٹیپو نے اپنی فیملی کو دبئی شفٹ کیا اور خود بھی کچھ عرصے کے لیے اس سب سے دور چلا گیا اور اپنے 3 بیٹوں اور ایک بیٹی کے ساتھ وقت گزارنے لگا۔
ٹیپو کا ٹرانسپورٹ کا بزنس پورے پاکستان میں پھیلا ہوا تھا اور کروڑوں اربوں کی پراپرٹی کو چھوڑ دینا بھی ٹیپو کے لیے نا ممکن تھا۔ اب وہ کبھی دبئی تو کبھی لاہور میں وقت گزارنے لگا۔ جب بھی ٹیپو کے بچے لاہور آتے تو اس کو اپنے بچوں کی حفاظت کی فکر رہتی اور بچوں کے معاملے میں وہ کسی پر یقین نہ کرتا۔ اس کا یقین صرف ایک شخص پر تھا جس کے ساتھ کوئی خونی رشتہ نہ تھا بلکہ وہ رشتہ یقین کی بنیاد پر بنا۔ ٹیپو اس شخص کے ہاتھ اپنے بچوں کو محفوظ سمجھتا تھا۔ وہ شخص ایک مشہور سیاستدان کا بیٹا ہے جسے امیر بالاج، امیر معصب اور امیر فتح چاچو کہہ کر پکارتے ہیں۔ اب وہ وقت آگیا تھا جب کامیابی کی باری دشمن کی تھی اور ٹیپو کے نصیب میں دنیا سے رخصتی لکھی جاچکی تھی۔
ٹیپو لاہور سے دبئی کے لیے روانہ ہوا تو پیچھے سے ٹیپو کے قتل کی پلاننگ شروع کر دی گئی۔ لاہور کے 5 بڑے شوٹرز کو کروڑوں روپے کے عوض ٹیپو کے قتل کے لیے تیار کیا گیا۔ جب شوٹرز کو علم ہوا کہ انہوں نے ٹیپو ٹرکاں والا کو ٹھکانے لگانا ہے تو ان کے پسینے چھوٹ گئے۔ چار شوٹرز نے پیسے واپس کیے اور اس منصوبے کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مزید جانیے اس ویڈیو میں