ادب واپس تصویروں، یعنی غاروں کی طرف جار ہا ہے

اتوار 17 نومبر 2024
author image

سجاد بلوچ

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

نوبیل انعام یافتہ ناول نگار ولیم فاکنر انتہائی دلچسپ شخصیت کے مالک تھے۔ وہ روایتی باتوں یا یوں کہیے ادب اور ادبیوں کے بارے میں معروف ’مغالطوں‘ کے بالکل الٹ اور اچھوتی بات کرتے تھے۔ ان کے ایک انٹرویو کے ترجمے کے دوران ایک بات نے مجھے خاص طور پر چونکایا، ’’ ہر ناول نگار پہلے شاعری کرنا چاہتا ہے، اور جب اس پر انکشاف ہوتا ہے کہ وہ نہیں کر سکتا تو افسانے لکھتا ہے، جو کہ شاعری کرنے کے بعد کافی محنت طلب کام ہے اور اس میں ناکامی کے بعد وہ ناول لکھنا شروع کرتا ہے۔‘‘

پاکستان اور بھارت میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاعری سب سے آسان کام ہے، ویسے دیکھا جائے تو جس طرح کی شاعری کے انبار لگائے جارہے ہیں وہ واقعی آسان ہے لیکن حقیقی معنوں میں الگ اور منفرد شاعری یا نئی بات کہنے کی کوشش کم کم دکھائی دیتی ہے۔ ولیم فاکنر کی بات کو قابل توجہ اس لیے بھی سمجھنا چاہیے اور کم از کم ان کی اپنی ذات کے حوالے سے یہ سچ بھی ہے کہ وہ خود بنیادی طور پر شاعر ہی تھے ور ان کا زیادہ تر کام شاعری میں تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ خود کو ایک ناکام شاعر مانتے اور اس کا بارہا اظہار بھی کر تے رہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے ناولوں کی وجہ سے مقبول ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ناول کے مستقبل سے بھی کوئی زیادہ مطمئن نہیں تھے، کہتے ہیں، ’’میں تصور کرتا ہوں کہ جب تک لوگ ناول پڑھتے رہیں گے ناول لکھا جاتا رہے گا یا اس کے الٹ کر لیں؛ جب تک کہ باتصویر میگزین اور مزاحیہ سطریں انسان کی مطالعے کی صلاحیت کو کمزور کر دیں گی اور ادب حقیقت میں واپس تصویر کی طرف جا رہا ہے، دور جہالت کے غاروں کی طرف۔‘‘ لیکن1962میں وفات پانے والے ولیم فاکنر کو اس وقت علم نہیں تھا کہ اکیسویں صدی میں بات تصویروں کی بجائے آڈیوز اور ویڈیوز کی طرف چلی جائے گی۔

انھوں نے ایک اور بہت دلچسپ بات کی کہ ’’مصنف کو معاشی آزادی کی ضرورت نہیں ہوتی، اسے بس ایک قلم اور کاغذ کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ لکھنے میں مصروف رہتا ہے۔ جو صف اول کا مصنف نہیں ہوتا وہ خود کو یہ کہہ کر دھوکہ دیتا ہے کہ اس کے پاس وقت یا معاشی آزادی نہیں تھے۔ اچھا فن چوروں، شراب فروشوں اور گھوڑے دوڑانے والوں میں سے بھی سامنے آ سکتا ہے۔لوگ حقیقت میں یہ جاننے سے ڈرتے ہیں کہ وہ کتنی تکلیف اور غربت برداشت کر سکتے ہیں۔ وہ یہ جاننے سے ڈرتے ہیں کہ وہ کتنے سخت جان ہیں۔ ایک اچھے مصنف کی راہ میں واحد رکاوٹ موت ہے اور اچھے مصنفین کے پاس وقت ہی نہیں ہوتا کہ وہ کامیابی یا امیر بننے کے بارے میں سوچیں۔”

فنکار کے عدم اطمینان کے بارے میں ان کی رائے روایتی تھی، لیکن کافی دلچسپ، کہتے ہیں’’میری رائے میں اگر میں اپنا سارا کام دوبارہ لکھ سکوں تو مجھے یقین ہے بہتر کر سکوں گا، جو ایک فنکار کے لیے صحت مندانہ صورت حال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کام کرتا جاتا ہے، بار بار کوشش کرتا ہے؛ اسے ہر مرتبہ یہ یقین ہوتا ہے کہ اس بار کر لے گا۔ بلاشبہ وہ نہیں کر پاتا اور یہی وجہ ہے کہ صورت حال صحت مندانہ ہے۔ ایک بار جب اس نے کرلیا، ایک بار جب اس نے اپنے کام کو خیال سے ملا لیا، خواب کے مطابق بنا لیا، تو کچھ بھی باقی نہیں بچے گا سوائے اس کا گلا کاٹنے کے، اس کمال کی چوٹی کے دوسری طرف چھلانگ لگانے کے، خود کشی کرنے کے۔‘‘

ان کے نزدیک عمدہ ناول نگار بننے کا کوئی فارمولا نہیں، ایک سوال کے جواب میں کہتے ہیں،’’99فی صد ٹیلنٹ۔۔۔99فی صد نظم و ضبط۔۔۔99فی صد محنت۔ ناول نگار کو کبھی بھی اپنے کام سے مطمئن نہیں ہونا چاہیے۔ یہ کام کبھی بھی اتنا اچھا نہیں ہوتا جتنا ہو سکتا ہے۔ ہمیشہ خواب دیکھیں اور اس سے بلند ہونے کی کوشش کریں جتنا آپ کر سکتے ہیں۔ محض اپنے ہم عصروں یا پیش رووں سے نہیں، خود سے بہتر ہونے کی کوشش کریں۔ ایک فنکار ایسی مخلوق ہے جسے بھوت پریت چلاتے ہیں۔ وہ نہیں جانتا وہ اسے کیوں منتخب کرتے ہیں اور عام طور پر، اس بات پر حیران ہونے کے لیے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے، وہ بہت مصروف ہوتا ہے۔ وہ اس باب میں مکمل طور پر بداخلاق ہوتا ہے کہ وہ کسی سے اور ہر ایک سے کام مکمل کرنے کے لیے کیا لوٹے گا، قرض لے گا، مانگے گا، یا چوری کرے گا۔”

اپنے ادبی سفر کے آغاز کے بارے میں ان کا دلچسپ بیان دیکھیے،  ’’میں نیو اورلینز میں رہتا تھا، روزی روٹی کمانے کے لیے جو بھی کام ملتا کر رہا تھا۔ میری ملاقات شرووڈ اینڈرسن سے ہوئی۔ ہم دوپہر کو شہر کے بارے میں بات کرتے اور لوگوں سے باتیں کرتے۔شام کو ہم دوبارہ ملتے اور بیٹھتے اور وہ بولتا میں سنتا۔ بعد از دوپہر میں اسے نہیں ملتا تھا۔ اگلے دن ہم یہی کچھ دہراتے۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اگر مصنفٖ کی یہی زندگی ہے تو مجھے یہ کرنا چاہیے۔ سو میں نے پہلی کتاب لکھنا شروع کر دی۔ مجھے اچانک محسوس ہوا کہ لکھنا مزے کا کام ہے۔ حتیٰ کہ میں بھول گیا کہ میں اینڈرسن سے تین ہفتے تک نہیں ملا، اور پھر وہ میرے گھر میں داخل ہوا۔ میں نے اسے بتایا میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں اس نے کہا، اوہ خدایا! اور باہر نکل گیا۔ جب میں نے کتاب مکمل کی تو یہ Soldier’s Pay تھی، میں گلی میں اینڈرسن کی بیوی سے ملا ، اس نے پوچھا کتاب کیسی جا رہی ہے میں نے بتایا ختم ہو گئی۔ تو اس نے کہا شرووڈ کہتا ہے اس کی ایک شرط ہے ،اگر وہ تمہارا مسودہ نہیں دیکھے گا تو پبلشر کو اسے شائع کرنے کا کہے گا۔ میں نے کہا، مجھے منظور ہے اور یوں میں ایک مصنف بن گیا۔میں ہر طرح کا کام کر سکتا تھا۔ مجھے زیادہ پیسوں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ نیو اورلینز میں زندگی آسان تھی اور مجھے صرف سونے کی جگہ چاہیے ہوتی تھی، تھوڑا سا کھانا، تمباکو وغیرہ۔ وہاں ایسے کئی کام تھے جو میں دو تین دن کر سکتا تھا اور باقی ماہ کے لیے رقم کما سکتا تھا۔ میرے لیے یہ شرمندگی کی بات تھی کہ دنیا میں اتنا کام ہے اور افسوس کی بات تھی کہ انسان آٹھ گھنٹے، ہر روز کام کر سکتا تھا۔ آپ آٹھ گھنٹے کھا نہیں سکتے یا پی نہیں سکتے، نہ ہی محبت کر سکتے ہیں۔ صرف کام کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ انسان نے خود کو اور دوسروں کو اتنا موذی اور ناخوش بنا دیا ہے۔‘‘

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

سجاد بلوچ شاعر، ادیب، صحافی اور ترجمہ نگار ہیں۔ ان کی مطبوعات میں ہجرت و ہجر(شعری مجموعہ)، نوبیل انعام یافتگان کے انٹرویوز(تراجم)، جینے کے لیے(یوہوا کے ناول کا ترجمہ)، رات کی راہداری میں(شعری مجموعہ) شامل ہیں۔ کچھ مزید تراجم ،شعری مجموعے اور افسانوں کا مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔پاکستان اور بھارت کے اہم ادبی جرائد اور معروف ویب سائٹس پر ان کی شاعری ،مضامین اور تراجم شائع ہوتے ہیں۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp