کیا رنگ لائے گا ایک اور احتجاج؟

پیر 18 نومبر 2024
author image

عزیز درانی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

پاکستان میں ایک جنگ سرحدوں پر لڑی جارہی ہے اور دوسری جنگ ملک کے اندر نظریاتی سرحدوں پر، ایک طرف دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قانون نافذ کرنے والے ادارے برسرپیکار ہیں تو دوسری طرف سوشل میڈیا پر روزانہ کی بنیاد پر نت نئے بیانیے کی جنگ لڑی جارہی ہے۔ سیاسی جماعتیں جنہیں اس وقت قومی اتحاد کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردوں کے خلاف متحد ہونے کی ضرورت ہے وہ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ اپنے ذاتی اور سیاسی مفادات سے آگے کوئی نہیں سوچ رہا۔ کسی کو اس ملک کی پرواہ ہے نہ ہی اس ملک میں رہنے والے غریب عوام کی۔

سیاسی جماعتیں اپنے اپنے سیاسی نظریات کے مطابق اپنا بیانیہ پھیلانے میں مصروف ہیں۔ حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں اپنے اقتدار کو دوام دینے کے لیے نت نئی پالیسیاں اور قانون سازی کرنے میں مصروف ہیں جبکہ حزب اختلاف کی جماعت اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک کے اندر احتجاج کے ساتھ ساتھ ملک سے باہر اپنے مقاصد کے حصول کے لیے لابنگ کرنے تک ہر قسمی حربہ آزما رہی ہے۔

پی ٹی آئی کو عمران خان کی رہائی کے لیے (دنیا بھر سے) اخلاقی حمایت سے لے کر مالی امداد تک جو کچھ بھی ملتا ہے اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کررہی ہے، لیکن اس بات کی کسی کو پرواہ نہیں کہ کہیں ان اقدامات سے ملکی مفادات کو ٹھیس تو نہیں پہنچ رہی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے لاکھوں ڈالرز لابنگ فرمز کو فیس کی مد میں ادا کیے جارہے ہیں، اور اس کے اثرات سامنے بھی آرہے ہیں۔ چاہے وہ پچھلے چند ماہ میں یکے بعد دیگرے پاکستان کے خلاف امریکی ایوان نمائندگان سے پاکستان مخالف قرارداد کے منظور کرنے کی صورت میں ہوں، چاہے 60 سے زیادہ اراکین کانگریس کی طرف سے امریکی صدر بائیڈن کو عمران خان کی رہائی میں کردار ادا کرنے کے لیے خط ہو۔ برطانوی اراکین پارلیمنٹ کی طرف سے لکھا گیا خط ہو یا اب ایک بار پھر 46 اراکین کانگریس کی طرف سے امریکی صدر جوبائیڈن کو لکھا گیا خط ہو۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ عمران خان کی رہائی جب بھی ہوگی وہ عدالتی حکمنامے کے ذریعے ہی ہوگی لیکن سب کچھ جاننے کے باوجود اس طرح مغربی ممالک سے پاکستان پر دباؤ ڈلوانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کا واحد ایجنڈا ریاست پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنا اور ان کو عالمی سطح پر بدنام کرکے کمزور کرنا ہے۔ حالانکہ یہی پی ٹی آئی تھی جس نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد امریکی غلامی نامنظور اور Absolutely Not کے نعرے لگائے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب یہ جو قراردادیں اور خطوط لکھوائے جارہے ہیں، کیا یہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں؟

یہ جس قدر پیسا امریکی لابنگ فرمز پر اور جتنی توانائیاں مغربی ممالک کے دباؤ کے ذریعے عمران خان کی رہائی کے لیے خرچ کی جارہی ہیں اگر اتنی کوشش قانونی حکمت عملی بنانے اور عدالتوں میں مقدمہ لڑنے پر کی جاتی تو شاید معاملات قدرے مختلف ہوتے۔ پی ٹی آئی کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان کی اعلیٰ عدالتیں آزاد ہیں اور آئین پاکستان کے مطابق فیصلے کررہی ہیں لہٰذا کسی بھی ملک کے دباؤ کے پیش نظر کسی بھی ایسے قیدی کو رہا کرنا ممکن نہیں ہے جو کرپشن، دہشت گردی اور عوام کو ریاست کے خلاف اکسانے جیسے مقدمات میں ملوث ہو۔

عمران خان کی رہائی سے متعلق مقدمات عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور ان کا فیصلہ اعلیٰ عدالتوں نے ہی کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کا بار بار لابیز کا استعمال کرکے غیر ملکی قوتوں کو مدد کے لیے بلانا ریاست پاکستان کی خود مختاری پر سوال اٹھانے کے مترادف ہے۔ اس بیرونی مداخلت کا عمران خان کے مقدمات پر الٹا اثر بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ اگر عدالتوں نے اس کا نوٹس لے لیا کہ اپنے حق میں فیصلے لینے کے لیے بیرونی دباؤ ڈلوایا جارہا ہے تو پھر لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔

24 نومبر کے احتجاج سے پہلے اس طرح امریکی اراکین کانگریس کی طرف سے خط لکھوانا کیا کوئی مثبت نتائج دکھائے گا؟ میرا نہیں خیال کہ یہ خط بھی پہلے خط کی طرح کوئی قانونی حیثیت رکھے گا یا حکومت پاکستان اور اسٹیبلشمنٹ ایسے کسی دباؤ کو خاطر میں لائے گی۔

پی ٹی آئی نے بیرون ممالک سے دباؤ ڈلوانے کے ساتھ ساتھ متعدد بار احتجاج کی کالز اور جلسے جلوس منعقد کیے ہیں لیکن ریاست اگر اس طرح جلسےجلوسوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنا شروع کردے گی تو پھر مستقبل میں کوئی بھی سیاسی یا مذہبی رہنما جتھہ لے کر وفاقی دارالحکومت پر چڑھ دوڑے گا اور اپنے مطالبات منوالے گا۔ ایسا کوئی بھی ریاست قبول نہیں کرسکتی، اس لیے اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ 24 نومبر کو دی جانے والی احتجاجی کال سے عمران خان کے مطالبات مان لیے جائیں گے تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ فی الحال تو نہ کوئی بیرونی مداخلت اور دباؤ کام کررہا ہے اور نہ ہی یہ احتجاج کوئی رنگ لاتا دکھائی دے رہا ہے۔ عمران خان کا مسئلہ جب بھی حل ہوگا وہ مقامی طور پر ہی ہونا ہے اور اس کا بظاہر حل وہی ہے جو کچھ عرصہ پہلے ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا تھا کہ 9 مئی کے واقعات پر عمران خان غیر مشروط معافی مانگ لیں، کیا وہ ایسا کریں گے؟

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp