عمران خان کا انقلاب دنیا کا واحد انقلاب ہے جو ایک ڈیل کا منتظر ہے۔ یہ وہ انقلاب ہے جو کسی بڑے گھر کی صدا کا انتظار کر رہا ہے۔ اس انقلاب کا نام اب ’التجا‘ بنتا جا رہا ہے۔ اب اسے ’فائنل کال‘ نہیں ’فائنل فریاد‘ کہا جانا چاہیے کیونکہ ہر طرف سے اب رستے بند ہو رہے ہیں۔ ہر طرف سے انکار ہو رہا ہے۔ اب کوئی حقیقی آزادی کی بات بھی نہیں کر رہا۔ اب کوئی ’کیا ہم کوئی غلام ہیں؟‘ کا نعرہ تک نہیں لگا رہا۔ اب ڈیل کی کوششیں ہیں اور نوشتہ دیوار ہے جو عمران خان کا منتظر ہے۔
اگر آپ تحریک انصاف کے کارکن ہیں تو آپ کے پاس جماعت سے کنارہ کشی کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔ کیونکہ اب آپ کو احساس ہو چلا ہوگا کہ یہاں پر خان کو آپ کی جدوجہد نہیں آپ کی لاشیں درکار ہیں۔ اب کارکنوں کا جذبہ نہیں ان کا بہتا خون درکار ہے۔ اب ان کا شعور نہیں تماشا درکار ہے۔ اب کارکن، مخلص کارکن جماعت کا اثاثہ نہیں جماعت پر بوجھ بن چکے ہیں۔ اب بیانیہ نہیں ضمانت درکار ہے۔ اب علی امین گنڈا پور کارکنوں کے لیے سب سے بڑی حقیقت ہیں جو سوائے اپنے دھڑے کے کسی کو مانتے ہی نہیں۔
بشریٰ بی بی نے جس ذلت آمیز طریقے سے کارکنوں کو حکم دیا، جس تضحیک آمیز لہجے میں تحریک انصاف کے عوامی نمائندوں کو مخاطب کیا اس سے بہت سے کارکنوں کی آنکھیں تو کھل گئی ہیں مگر زبانیں اب بھی چپ ہیں۔ اب زیادہ دیر نہیں لگے گی جب کارکنوں کی زبانیں بھی کھلیں گی اور وہ کھل کر اس بے عزتی کا بدلہ چاہیں گے۔
کارکن سوال کریں گے کہ ہمارا مصرف صرف رسوا ہونا ہے۔ کبھی علی امین گنڈا پور کے ذریعے، کبھی بشریٰ بی بی کے ذریعے۔ کیا تحریک انصاف کی عزت نفس کا جنازہ تحریک انصاف کی لیڈر شپ کے ذریعے ہی نکلے گا؟
خان صاحب نے ساری عمر کارکنوں کو یہ بتایا کہ سب سے بڑا جرم موروثی سیاست ہے۔ سب سے بڑا الم خاندان میں سیاست کو قید کرنا ہے۔ آج تحریک انصاف نند، بھاوج کے جھگڑوں کا شکار ہے۔ نہ کسی کو بیانیے کی فرصت ہے نہ حقیقی آزادی کا خیال۔ یہ پاور گیم ہے جس میں گدھ مال کو نوچنے کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ بھابھی کہتی ہیں کہ ہر رکن پانچ سے دس ہزار بندہ لے کر آئے۔ نند کہتی ہے کہ ہم ان سے مذاکرات کریں گے جن کے پاس طاقت ہے۔ تحریک انصاف دو کشتیوں میں سوار ہو گئی ہے اور دو کشتیوں کے سوار کے پاس ڈوب جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔
مذاکرات کی خبریں خود بنانے کا اوران کی بنیاد پر سوشل میڈیا میں قیامت بپا کر دینے کا ہنر پی ٹی آئی سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ اطلاعات یہ ہیں کہ نہ مذاکرات کی کوئی پیشکش ہے نہ مطالبات پر کوئی غور کیا جا رہا ہے۔ نہ کوئی ٹیم تشکیل دی گئی ہے نہ خان کی ان افواہ نما خبروں سے کوئی متاثر ہو رہا ہے۔ نہ لانگ مارچ کی دھمکی سے کسی کی کانپیں ٹانگ رہی ہیں نہ فائنل کال سے کوئی تھر تھر کانپ رہا ہے۔ سب کچھ پرسکون ہے سوائے عمران خان کے۔ کیونکہ انہیں نہ سیاسی استحکام خوش آ رہا ہے نہ معاشی ترقی پسند آ رہی ہے۔ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا خود ہی نادیدہ مذاکرات کی خبریں جاری کرتا ہے، یوٹیوبر کے تبصرے سن کر سر دھنتا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ نہ کوئی نو مئی کے مجرموں سے بات کررہا ہے نہ ان کی بات سن رہا ہے۔ بات بن نہیں رہی البتہ باتیں بنائی جا رہی ہیں۔
فیصل واوڈا کے طرز سیاست سے آپ جتنا مرضی اختلاف کریں یہ آپ کا حق ہے۔ لیکن فیصل واوڈا نے اتنے برسوں میں ایک بات سب کے ذہن نشین کروا دی ہے کہ جب وہ کسی پریس کانفرنس کے لیے ٹی وی سکرین پر جلوہ افروز ہوتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ان کے پاس کوئی خبر ہے۔
کل فیصل واوڈا نے جو انکشافات کیے وہ بہت قابل غور ہیں۔ انہوں نے صاف صاف کہا کہ کارکنوں سے بشریٰ بی بی کے مطالبات غیر حقیقی ہیں۔ دس ہزار تو کیا اب ایم این اے پچاس بندے نہیں لا سکتے۔ یہ بات درست ہے ۔کیونکہ پنجاب میں تحریک انصاف کے کارکن اب اس روز روز کی لڑائی سے تنگ آ چکے ہیں۔ وہ بھی سکون کے سانس کے خواہشمند ہیں۔ وہ پوچھتے ہیں کہ کیا ان کی وفاداری کا ثبوت گرفتاری، مار کٹائی اور جلاؤ گھیراؤ میں پوشیدہ ہے۔ کیا ان کے مقدر میں کبھی بشریٰ بی بی سے ذلیل ہونا کبھی علیمہ خان کی باتیں سننا اور کبھی علی امین گنڈا پور جیسے کردار کا دفاع کرنا ہی رہ گیا ہے۔
وہ ایم این اے، ایم پی ایز سیاست میں اس لیے آئے تھے کہ اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کا کام کر سکیں، اپنے حلقے کے لوگوں کے کام آ سکیں۔ مسلسل رسوائی کا کبھی انہوں نے سوچا بھی نہیں تھا۔ خان کی خاطر وطن دشمنی ان کے خیال میں بھی نہ تھی۔
فیصل واوڈا کی دوسری خبر پہلی سے بھی زیادہ خطرناک تھی۔ انہوں نے بتایا کہ چوبیس نومبر کو احتجاج اس لیے ہو رہا ہے کہ پچیس نومبر کو عمران خان اور فیض حمید پر فرد جرم عائد کی جا رہی ہے۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ کارکنوں کو اس لیے مروانے کے لیے بلایا جا رہا ہے کہ وہ عمران خان کے جرائم پر پردہ ڈال سکیں۔
عمران خان کے جرائم بہت سنگین ہیں۔ ادارے میں لوگوں کو بغاوت پر اکسانا، ملک بھر میں فوج کی تنصیبات پر حملہ کرنا، شہدا کی یادگاروں کو نذرآتش کرنا تو ناقابل معافی ہے ہی، توشہ خانہ میں بھی خان کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔ اور ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس تو سامنے کی بات ہے اس میں معافی نہیں ہو سکتی۔ سب قانونی تقاضے پورے ہو چکے ہیں۔ اب کیس کا فیصلہ سنانا باقی ہے۔ عمران خان کو اس فیصلے کا پتہ ہے اسی لیے وہ اپنی جان بچانے کے لیے اپنے کارکنوں کی جانوں کی قربانی دینا چاہتے ہیں۔