پاکستان زراعت کے اعتبار سے بہترین ملک سمجھا جاتا ہے، اور دہی آبادی کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہی ہے اس لیے پاکستان میں مختلف قسم کی فصلیں اُگائی جاتی ہیں جو کہ زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش بھی ہیں۔ تاہم، اگر زرعی آمدن پر انکم ٹیکس لگا دیا جائے تو تقریباً 65ارب روپے جمع کیے جاسکتے ہیں۔
بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والی ایک فاؤنڈیشن فریڈرک ایبرٹ اسٹفٹنگ نے ایک رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان اگر زرعی آمدن پر ٹیکس عائد کرے تو 65ارب روپے کماسکتا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ٹیکس کی شرح وہی رکھی جائے جو دیگر شعبوں میں نافذ کی گئی ہے۔
مزید پڑھیں: آئی ایم ایف مذاکرات، کیا زرعی آمدنی پر ٹیکس عائد ہونے والا ہے؟
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایف ای ایس رپورٹ میں جو تخمینے شامل کیے گئے ہیں وہ 2010 کے ڈیٹا پر مبنی ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق صوبے قانون سازی کر رہے ہیں، پنجاب اس عمل میں سب سے آگے ہے، لیکن ابھی تک اس عمل میں حقیقی شرح کا تعین نہیں کیا جا سکا ہے۔
تاہم، یہ اس حوالے سے مختلف دعوے سامنے آئے ہیں، جیسے کہ یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ شرح کا اعلان رولز کے تحت کیا جائے گا۔ خیبرپختونخوا سمیت دیگر صوبوں، سندھ اور بلوچستان نے بھی اپنی اپنی متعلقہ صوبائی اسمبلیوں میں اس قانونی سازی کی منظوری دے دی ہے۔
خیال رہے پاکستان کی قومی ٹیکس پالیسی کی راؤنڈ ٹیبل پر پاکستان اور فریڈرک ایبرٹ اسٹفٹنگ اور پبلک سروس انٹرنیشنل کے ساتھ مشترکہ طور پر جاری ہونے والی رپورٹ میں 1.2ٹریلین روپے کے ٹیکس عملدرآمد کے خلا کی نشاندہی کرتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ5بڑے سیکٹرز تمباکو، چائے، ریئل اسٹیٹ، آٹو موبائیلز اور فارماسیوٹیکلز 1.2ٹریلین روپے جمع کراتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کسان اتحاد نے زرعی آمدنی پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ مسترد کردیا، احتجاج کا اعلان
قومی ٹیکس پالیسی کے سربراہ سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ستم ظریفی یہ ہے کہ تنخواہ دار طبقہ پرچون فروشوں سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ یہی چیز رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر بھی صادق آتی ہے جو کہ ملک کا سب سے بڑا سیکٹر ہے لیکن وہ اپنی حیثیت کے مطابق ٹیکس ادا نہیں کرتا۔
واضح رہے ملک میں ابھی بھی ایسے شعبے موجود ہیں جہاں ٹیکس کی شرح ان کی حیثیت کے مطابق نہیں ہے، لیکن تنخواہ دار طبقہ ان سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو پالیسی میں تبدیلی لانی چاہیے تاکہ ان شعبوں پر بھی ٹیکس لگایا جائے جن پر ٹیکس نہیں ہے یا پھر ٹیکس کی شرح کم ہے۔