کپتان کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ وہ جیل میں ہو، زمان پارک میں یا بنی گالا میں، وہ جو ٹھان لیتا ہے، کر گزرتا ہے۔
قوم پارا چنار کے سوگ میں بیٹھی ہے۔ کوئی دن جاتا نہیں جب وہاں گولی نہیں چلتی اور لاشے نہیں گرتے۔ اس بار تو انتہا ہوگئی۔ ایک نہ دو پورے 45 لاشے گرے ہیں۔ گولیاں چلانے والوں نے گولیوں کی باڑھ ماری تو بڑے چھوٹے کی تمیز بھی جاتی رہی۔ شیر خوار بچوں تک کو چھلنی کر دیا گیا۔
یہاں ایک کہاوت یاد آتی ہے۔ لڑکپن میں اسکول کے ساتھی مل بیٹھتے تو ایک سوال کیا کرتے:
’یار، یہ بتاؤ کہ اگر یہاں کہیں کوئی حادثہ ہو جائے، آگ بھڑک اٹھے یا کوئی اور انہونی ہو جائے تو تمھارا موضوع گفتگو کیا ہو گا؟‘
ساتھی جواب دیتے کہ ظاہر ہے کہ ہم اسی حادثے پر بات کریں گے۔ اس پر سوال کرنے والے کے چہرے پر شاطرانہ مسکراہٹ رونما ہوتی اور وہ کہتا کہ پھر تو تم ایک عام بلکہ سطحی سے آدمی ہوئے۔ جواب دینے والا سٹپٹا کر رہ جاتا اور سوال کرتا کہ وہ کیسے؟
جواب ملتا، وہ ایسے کہ عامیانہ ذہنی سطح کے لوگ حادثات اور واقعات پر بات کرتے ہیں۔ درمیانے درجے کے لوگ وقتی معاملات سے متاثر نہیں ہوتے اور نہ پیسے ٹکے کے فریب میں آتے ہیں۔ ان کے مقابلے میں اعلیٰ ذہنی صلاحیتوں کے مالک نظریات اور تصورات پر بات کرتے ہیں اور کسی وقتی معاملے اور حادثے سے متاثر نہیں ہوتے۔
بچپن اور لڑکپن میں سیکھے ہوئے اس سنہری اصول پر دنیا کو پرکھتے ہوئے زمانہ بیت گیا، لیکن کسی بندہ بشر کو اس اعلیٰ ذہنی معیار پر پورا اترتے نہ دیکھا۔ اب جب کہ زندگی کی شام قریب آتی جا رہی تھی، یہ عقیدہ پختہ ہوتا جا رہا تھا کہ یہ دنیا ہے ہی سطحی اور تھرڈ کلاس، جس میں وقتی حالات و واقعات سے متاثر ہونے والوں کے سوا ہے ہی کوئی نہیں، لیکن اللہ کا شکر ہے کہ اب ادھیڑ عمری کو پہنچنے کے بعد اس باطل عقیدے سے نجات ملی اور معلوم ہوا کہ یہ دنیا چاہے کیسی ہی کیوں نہ ہو، ہمارا پاکستان اعلیٰ ذہنی صلاحیت رکھنے والے لوگوں سے بھرا پڑا ہے۔
ہمارے جیسے ہما شما چھوٹے دماغ کے لوگ مرے جاتے ہیں کہ ہائے ہائے! پارا چنار میں ظلم ہو گیا۔ بے گناہ لوگوں کو بھون کر رکھ دیا گیا۔ ظالمو! کیوں تم پارا چنار کا رخ نہیں کرتے اور ہتھیار بند ظالموں کا ہاتھ نہیں پکڑتے؟ کراچی سے خیبر تک یہی شور بپا ہے لیکن مجال ہے کہ کپتان کے ٹائیگر یعنی علی امین گنڈا پور کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ اس نے ڈنکے کی چوٹ پر کہہ دیا ہے کہ کپتان اس کے دل میں بستا ہے۔ کپتان نے جو کہہ دیا ہے، وہ پتھر پر لکیر ہے۔ اب تم پارا چنار کو روؤ خواہ بیلا روس کی دہائی دو، اسلام آباد پر چڑھائی کا فیصلہ اٹل ہے۔
اسلام آباد پر چڑھائی کے تعلق سے بیلا روس کا ذکر ہوا ہے تو تھوڑا ذکر اس ملک کا بھی ہو جائے۔ کوئی جانتا ہے کہ یہ بیلا روس کیسا ملک ہے اور پاکستان کے لیے اہم کیوں ہے؟ اس زمانے کے بچوں خاص طور پر لیلائے انصاف کے فدائیوں یعنی انصافینز کے زمانے سے پہلے کی بات ہے، پاکستان میں کھیتی باڑی کے لیے جتنے ٹریکٹر آتے تھے، اسی ملک سے آتے تھے اور ان کے طاقت ور لمبوترے سے انجن کی کمر پر انگریزی میں لکھا ہوتا تھا:
’بیلا روس‘
اس بار اسی ملک کا صدر الیگزینڈر لوکا شینکو پاکستان آ رہا ہے۔ یہ شخص بھی عجیب آدمی ہے۔ زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو، اس کی تان پاکستان پر ٹوٹتی ہے۔ ادب کا معاملہ ہو تو اسے پاکستان کے ادیب دکھائی دیتے ہیں اور وہ انھیں اپنا مہمان بنا لیتا ہے کہ آؤ، ہمیں دیکھو بھالو اور جانو کہ ہم لوگ کیسے ہیں۔ ہم کیسے بولتے بولتے ہیں۔ اٹھتے بیٹھتے ہیں اور سوچتے ہیں۔ ہمارے قصے کہانیاں کیسے ہیں اور دکھ سکھ کی شاعری کیسی ہے۔
کاروبار اور صنعت کا معاملہ ہو تو بھی اسے پاکستان اور اہل پاکستان ہی دکھائی دیتے ہیں۔ وہ پاکستان پہنچ جاتا ہے یا ہمیں منسک بلا لیتا ہے اور کہتا ہے کہ آؤ ذرا سر جوڑ کر بیٹھتے اور سوچتے ہیں کہ کیسے ہم دونوں بھائی اور دوست مل کر کام کر سکتے ہیں اور اپنی محنت کی کمائی سے اپنے اہل وطن کی زندگی میں آسانی لا سکتے ہیں اور ان کے دل خوشیوں سے بھر سکتے ہیں۔ بیلا روس ٹریکٹر والا زمانہ پرانا ہوا، اب اس ملک نے ایک جست اور لگائی ہے۔ یہ ملک اب ایسی مشینری بنانے لگا ہے جس سے بڑی بڑی نفع آور صنعتوں کی مشینری بنائی جاتی ہے یعنی مشینیں بنانے والی مشینری۔
ہمارے مشاہد حسین سید جیسے چہرے مہرے والا لوکا شینکو مرحوم و مغفور صدر ممنون حسین کے زمانے میں پاکستان آیا تو کہنے لگا کہ ساری دنیا میں مجھے پاکستان ہی ایسا ملک لگتا ہے جس کے ساتھ مل کر ہم کام کر سکتے ہیں۔ انسانی خوبیوں کے اعتبار سے بھی اور صلاحیت کے اعتبار سے بھی۔ دونوں ملکوں کا تعاون ایک ایسے مبارک اتحاد کو جنم دے سکتا ہے جو معیشت اور سیاست ہر دو میدانوں میں خیر و برکت کا باعث بن سکتا ہے۔ اپنے لیے بھی اور عالمی ساہو کاروں کے ظلم کا شکار باقی دنیا کے لیے بھی۔ اسی لیے میں دوڑ دوڑ کر پاکستان آتا ہوں۔ سال 2014 سے 2018 تک وہ بار بار پاکستان آیا اور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف بیلا روس گئے۔ یوں دونوں ملکوں کے درمیان بھاری مشینری کے شعبے میں تعاون کی مضبوط بنیاد قائم ہو گئی۔ اس کے بعد ہمارے کپتان کی تبدیلی آ گئی ہے اور سی پیک کی طرح پاک بیلا روس تعاون کا خواب بھی پریشاں ہو گیا۔ اب اتنے عرصے کے بعد اس ضدی شخص نے امید کا دامن ایک بار پھر تھاما ہے اور پاکستان آنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن گنڈا پور ہی نہیں شائستہ مزاج بیرسٹر گوہر نے بھی بتا دیا ہے کہ ہمیں پیسے ٹکے کی باتوں سے بہلایا نہیں جا سکتا۔ لوکا شینکو آئے یا نہ آئے، 24 نومبر کا فیصلہ اٹل ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ کپتان نے پاکستان اور اہل پاکستان کو روپے پیسے کے حقیر تصورات کا اسیر ہونے سے بچا لیا۔ تحقیق، تم کپتان کی کس کس عظمت کا انکار کرو گے؟
اسلام آباد پر چڑھائی کے ذریعے لوکا شینکو کے استقبال کے فیصلے سے ذہن دائیں بائیں بہت بھٹکتا ہے۔ ہمارے جیسے عام لوگوں کا خیال اس عہد کی عالم بے بدل اور عابدہ و زاہدہ بشریٰ بی بی کے تازہ سخن کی طرف جاتا ہے جس میں انھوں بتا دیا ہے کہ کپتان شریعت کا ٹھیکے دار ہے اور وہ اس کے پیروکار کسی دوست حتیٰ کہ سعودی عرب جیسے ملک کے جھانسے میں بھی نہیں آ سکتے۔ وہ چاہے ہمیں ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے آگے آئیں، خواہ پوری دنیا کو چھوڑ کر سرمایہ کاری کے لیے پاکستان کا انتخاب کریں۔ ’ہم کسی گند ڈالنے والے‘ اور ’یہ کسے اٹھا کر لے آئے ہو‘ کہنے والے کے فریب میں نہیں آئیں گے، کیونکہ ہم اعلیٰ اقدار پر یقین رکھتے ہیں اور پاکستان میں ایل جی بی ٹی کی بنیاد رکھنا والا قانون پارلیمنٹ سے منظور کر کے شریعت کا تحفظ کرتے ہیں۔ تو اے کم نظر اور کم ظرف دشمنو! تم کپتان کی کس کس بڑائی کا انکار کرو گے؟
بات بے گناہوں کے لہو میں ڈوبے ہوئے پارا چنار سے شروع ہوئی تھی لیکن بیلا روس سے ہوتے ہوئے سعودی عرب تک جا پہنچی۔ اس بہانے حاسدوں نے اپنے دل کے پھپولے خوب پھوڑے۔ کسی نے چین کے صدر کے منسوخ ہونے والے دورے کو یاد کیا۔ کسی نے سعودی عرب، ترکی، انڈونیشیا اور جانے کس کس ملک کے ساتھ تعلقات کے بگڑنے کا رونا رویا۔ کسی کو مودی کی دانش مندانہ حمایت پر تکلیف ہوئی اور کسی کو کشمیر کا درد اٹھا کہ کیوں کپتان نے اس دیرینہ مسئلے کے بغیر خون بہائے حل کے لیے نریندر مودی کے ساتھ تعاون کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ حاسدوں کے پیٹ میں درد بہت ہے۔ ان کے الزامات اور بہتانوں کی فہرست طویل ہے۔ وہ آزاد ہیں، چاہے تو اپنا سر دیوار سے مار کر پھوڑیں، چاہے اپنے ہاتھ سے پتھر کو آزمائیں، ہم کپتان کے جاں نثاروں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم نہ چھوٹے موٹے حادثات حتیٰ کہ خون ریزی سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ روپے پیسے سے بہلتے ہیں۔ ہم حقیقی آزادی کے دیوانے ہیں اور عظیم نظریے کے پیروکار ہیں۔ یہ نظریہ کسی انسان حتیٰ کہ 26 کروڑ انسانوں، ان کے گھر بار حتیٰ کہ ملک سے بھی بلند ہے۔ یہ لوگ مریں چاہے جیئں۔ ان کے گھر اور ان کی سر زمین بچے چاہے نہ بچے، ہم حقیقی آزادی کے حصول تک چڑھائی کرتے رہیں گے۔ اے چھوٹی عقل رکھنے والے حقیر لوگو! تم کپتان کی کس کس عظمت کا انکار کرو گے؟