سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس جمال مندوخیل کے نام بھی خط لکھ دیا

جمعہ 13 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان (ایس سی پی) کے سینیئر پیونی جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا ہے کہ ہماری عدلیہ اپنی تاریخ کے کمزور ترین دور سے گزر رہی ہے اور انتظامیہ کی مداخلت کے خطرات کسی بھی دور سےزیادہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:جسٹس منصورعلی شاہ کے ججز کی تعیناتی کے طریقہ کار پرتحفظات، جوڈیشل کمیشن کو خط لکھ دیا

جمعہ کو ججز تعیناتی کے لیے رولز بنانے کے معاملے پر سپریم کورٹ کے سینیئر پیونی جج، جسٹس منصور علی شاہ نے رولز میکنگ (قواعد ساز) کمیٹی کے سربراہ جسٹس جمال خان مندوخیل کے نام بھی 2 صفحات پر مشتمل خط لکھ دیا ہے۔

1 by Iqbal Anjum on Scribd

جسٹس منصور علی شاہ نے جسٹس جمال خان مندوخیل کے نام خط میں لکھا ہے کہ آئینی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کا معاملہ ملک میں عدلیہ کی آزادی، جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

انہوں نے لکھا کہ آئین کے آرٹیکل 175اے کی شق 4 کے تحت ججوں کی تقرری کے لیے طریقہ کار طے کرنا جوڈیشل کمیشن کا اختیار ہے، اس لیے تقرری کے رولز کے بغیر کوئی بھی تعیناتی غیر آئینی ہو گی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ججز تعیناتی میں عدلیہ کا اہم کردار ہوتا تھا، 26 ویں ترمیم کے بعد یہ توازن بگڑ چکا ہے، اب ججز تعیناتی میں ایگزیکٹو کا کردار بڑھ چکا ہے۔اس تبدیلی سے عدالتوں میں سیاسی تعیناتیوں کا خطرہ ہے اور ایسے جج تعینات ہو سکتے ہیں جو نظریاتی طور پر قانون کی حکمرانی پر یقین نہ رکھتے ہوں۔

مزید پڑھیں:جوڈیشل کمیشن کا 6 دسمبر کا اجلاس مؤخر کیا جائے، جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط

جسٹس منصور علی شاہ نے مزید لکھا کہ ایک بھی تعیناتی سخت رولز کی کسوٹی کے خلاف ہوئی تو عدلیہ پر اعتماد میں کمی آئے گی۔ ججوں کی تعیناتی سخت معیار کے تحت ہونی چاہیے اور اس میں سیاسی بنیادوں پر تقرریوں کا خدشہ نہیں ہونا چاہیے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ججوں کی تعیناتی کے لیے اپنی تجاویز بھی ارسال کی ہیں۔

اس سے قبل جسٹس منصور علی شاہ نے جوڈیشل کمیشن کے نام خط میں لکھا تھا کہ  کمیشن کے ایک رکن کی حیثیت سے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کمیشن نے ابھی تک آئین کے آرٹیکل 175 اے (4) کے تحت ججوں کی تقرری کے معیار کو پرکھنے کے  لیے طریقہ کاریا جائزہ لینے کے لیے اپنے قواعد تیارنہیں کیے ہیں۔

انہوں نے لکھا کہ آسامیوں پر ججزکی تقرری کے لیے کمیشن کی جانب سے وضع کردہ کسی بھی حد سے زیادہ پالیسی، معیار اور طریقہ کار کی عدم موجودگی میں کمیشن متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سمیت کسی بھی رکن کی نامزدگیوں پرغورنہیں کرسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جب تک آئینی بینچ نہیں بیٹھے گا کیا ہم غیر آئینی ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ ’واضح رہے کہ جنرل کلازایکٹ 1897 کا اطلاق آئین پرنہیں ہوتا۔ نتیجتاً مذکورہ ایکٹ کی دفعہ 24، جوعام قوانین کے تحت بنائے گئے سابقہ قواعد کو جاری رکھنے کا اہتمام کرتی ہے، سابقہ جوڈیشل کمیشن آف پاکستان رولز2010 پرلاگو نہیں ہوتی اوراس لیے نامزدگیاں شروع کرنے کے لیے ان پر کوئی انحصار نہیں کیا جا سکتا۔

حتیٰ کہ دوسری صورت میں مذکورہ قواعد ججوں کی تقرری کے معیار کو پرکھنے کے لیے طریقہ کارفراہم نہیں کرتے ہیں جو اب کمیشن کے ذریعہ آئین کے آرٹیکل 175 اے (4) کے تحت بنائے گئے قواعد میں فراہم کرنا لازمی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ کمیشن ملک کی آئینی عدالتوں میں ججوں کی تقرری کا ذمہ دار ہے۔ لہٰذا کمیشن پرلازم ہے کہ وہ ایک جامع پالیسی اورواضح معیارقائم کرے جوججز کی نامزدگی اوران کی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کے عمل کی رہنمائی کرے اوراس کی ریگولیشن کرے۔

 مزید پڑھیں مقدمات کے جلد تصفیے کے لیے جسٹس منصور علی شاہ کا منصوبہ کیا ہے؟

انہوں نے لکھا کہ اس طرح کے فریم ورک کے بغیراس عمل میں شفافیت، مستقل مزاجی اورمیرٹ کی پامالی کا خطرہ ہے۔ ایک جامع پالیسی کے تحت سب سے پہلے ممکنہ تقرریوں کی وضاحت کرنی چاہیے، یعنی ضلعی عدلیہ کے ارکان، قانون کے مخصوص شعبوں میں کام کرنے والے وکلا کی مہارت، علاقائی، مذہبی اور صنفی حیثیت کے لحاظ سے چانچنے کی ضرورت ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp