وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے حافظ حمد اللہ کے بیان پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’مدارس بل‘ پر صدرمملکت کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات قانونی اور آئینی ہیں، مدارس کی رجسٹریشن سے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:مدارس بل کی منظوری کے لیے حکومت کو مولانا فضل الرحمان کی ڈیڈ لائن، مدارس بل ہے کیا؟
ہفتہ کے روز حافظ حمد اللہ کے بیان پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تاڑر کے ردعمل سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مدارس رجسٹریشن بل سے متعلق صدر مملکت آصف علی زرداری کی طرف سے لگائے گئے اعتراضات قانونی اور آئینی ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق وزیر اطلاعات و نشریات نے مزید کہا کہ قانونی اور ٓئینی معاملات پر سیاست کسی کے بھی حق میں نہیں ہو گی، مدارس رجسٹریشن کو ایف اے ٹی ایف (فیٹف) سے جوڑنا خیال آرائی کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ مدارس رجسٹریشن بل کو فیٹف سے جوڑنا بے سروپا تخیّل اور خیال آرائی کے مترادف ہے، قانون سازی کا طریقہ کار آئین میں واضح ہے، بیان بازی، تنقید سے صدر اور پارلیمنٹ کے اختیارات کو ہدف بنانے سے گریز کرنا چاہیے۔
مزید پڑھیں:علما کو تقسیم کرنے کی سازش کی جارہی ہے، ریاست کے ساتھ تصادم نہیں چاہتے، مولانا فضل الرحمان
واضح رہے کہ جمعیت علمائے اسلام کے رہنما حافظ حمد اللہ نے پارلیمنٹ سے پاس کردہ مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت کے اعتراضات پر کہا تھا کہ ’صدر کا بل پردستخط نہ کرنا ’بلی تھیلے سے باہرآگئی‘ کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہا کہ تھا کہ ثابت ہوا کہ مدارس کو ایف اے ٹی ایف (فیٹف ) کے حوالے کرنا ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس ڈاٹ‘ کام پر اپنی ایک پوسٹ میں حافظ حمد اللہ نے لکھا کہ ’پارلیمنٹ کا پاس کردہ، مدارس رجسٹریشن بل پر ایوان صدر کے اعتراضات سے’ بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے‘، بل پراعتراضات سے ثابت ہوا کہ اصل مقصد مدارس کو ایف اے ٹی ایف (فنانشل ایکشن ٹاسک فورس) کے کے حوالے کرنا ہے، یہ بھی ثابت ہوگیا کہ پارلیمنٹ پاکستان کا نہیں ’فیٹف‘ کا پارلیمنٹ ہے۔
پارلیمنٹ کا پاس کردہ، مدارس رجسٹریشن بل پر ایوان صدر کے اعتراضات سے،،بلی تھیلے،،سے باہر آگئی ہے،
بل پر اعتراضات سے ثابت ہوا کہ اصل مقصد مدارس کو،فیٹیف،کے کہنے پر،فیٹیف،کے حوالے کرنا،
یہ بھی ثابت ہوگیا کہ پارلیمنٹ پاکستان کا نہیں،فیٹیف، کا پارلیمنٹ ہے،کیا،فیٹیف،ہمیں ڈکٹیٹ…
— Hafiz Hamdullah (@iHafizHamdullah) December 14, 2024
انہوں نے مزید لکھا تھا کہ ’کیا ’فیٹف‘ ہمیں ڈکٹیٹ کرے گا کہ کون سا ادارہ کس قانون کے تحت کام کرے گا؟ قوم پر واضح ہوگیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پارلیمنٹ قانون سازی میں آج بھی آزاد نہیں ہے۔
انہوں لکھا کہ ’ایوان صدر کے بابووں نے سوسائیٹیزایکٹ پڑھا ہی نہیں ورنہ اعتراضات اٹھانے کی نوبت ہی نہیں آتی، کیا سوسائیٹیزایکٹ کا قیام فائن آرٹ کے لیے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: مدارس بل پر صدر کے اعتراضات جاننے کے لیے جے یو آئی کا اسپیکر قومی اسمبلی کو خط
حافظ حمد اللہ نے مزید لکھا کہ ’ایوان صدر قوم کو بتائے کہ آج تک فائن آرٹ کے ادارے کتنے ہیں، یہ تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ ایوان صدر کے مدارس بل پراعتراضات محض ’جھوک‘ ہیں اور کچھ نہیں۔
واضح رہے کہ بل پر اعتراض کرتے ہوئے صدر مملکت نے لکھا کہ نئے بل کی شقوں میں مدرسے کی تعریف میں تضاد ہے اور سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ 1860 کے ابتدائیے میں مدرسے کا ذکر موجود نہیں ہے اس لیے نئے بل میں مدرسے کی تعلیم کی شمولیت تضاد پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ آرڈیننس 2001 موجود ہے اس لیے نئے قانون کی ضرورت نہیں۔
مزید پڑھیں:مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت آصف علی زرداری کے اعتراضات کیا ہیں؟
مدارس رجسٹریشن بل پر صدر مملکت کا ایک اور اعتراض یہ ہے کہ اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹوری ٹرسٹ ایکٹ 2020 بھی موجود ہے۔ مزید یہ کہ مدارس کو سوسائٹی رجسٹرڈ کرانے سے تعلیم کے علاوہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، سوسائٹی ایکٹ 1860 میں مدارس شامل نہیں ہیں۔
صدر مملکت نے مزید اعتراض کیا کہ رجسٹریشن سے فرقہ واریت کے پھیلاؤ کا خدشہ ہے اور سوسائٹی میں مدرسوں کی رجسٹریشن سے مفادات کا ٹکراؤ ہوگا۔
انہوں نے ایک اور اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایف اے ٹی ایف اور جی ایس پی سمیت عالمی ادارے اپنی آرا اور پاکستان کی ریٹنگز میں تبدیلی لاسکتے ہیں۔