عربی زبان: تہذیبوں کا سنگم، علم کا سرچشمہ

بدھ 18 دسمبر 2024
author image

ڈاکٹر راسخ الكشميری

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

عربی زبان کا عالمی دن، جو ہر سال 18 دسمبر کو منایا جاتا ہے، ایک ایسے لسانی اور ثقافتی ورثے کی تکریم ہے جو صدیوں سے انسانی تہذیب کا حصہ رہا ہے۔ یہ دن ہمیں ایک ایسی زبان کی طرف متوجہ کرتا ہے جو علم، حکمت، روحانیت اور ادب کا منبع ہے۔ یہ صرف ایک زبان نہیں بلکہ ایک دنیا ہے، ایک ایسی دنیا جو تاریخ کے اوراق میں، ثقافت کے رنگوں میں اور انسانی فکر کی گہرائیوں میں بسی ہوئی ہے۔ 1973 میں اسی دن اقوام متحدہ نے عربی کو اپنی سرکاری زبانوں میں شامل کیا تھا، یہ فیصلہ عالمی سطح پر اس زبان کی اہمیت کا واضح اعتراف تھا۔

عربی زبان محض الفاظ کا ایک مجموعہ نہیں بلکہ ایک مکمل نظام ہے، ایک ایسی کائنات ہے جس میں معانی کی وسعت اور اظہار کی گہرائی بے مثال ہے۔ یہ وہ زبان ہے جس میں قرآن نازل ہوا، جو کروڑوں مسلمانوں کے لیے ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اس زبان نے اسلامی تہذیب کے عروج میں اہم کردار ادا کیا اور سائنس، فلسفہ، طب، ریاضی، فلکیات اور ادب کے میدانوں میں ایسے شاہکار تخلیق کیے جن سے دنیا آج بھی مستفید ہورہی ہے۔ امرو القیس، النابغہ الذبیانی، سحبان بن وائل، حسان بن ثابت، کعب بن زہیر سے لیکر نجیب محفوظ، جبران خلیل جبران، نزار قبانی، غازی القصیبی، محمود درویش وغیرہ نے عربی میں اپنے علمی خزانے چھوڑے جو آج بھی دنیا بھر کے عربی زبان سے محبت کرنے والوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ یہ زبان صرف ماضی کی داستان نہیں سناتی بلکہ آج بھی کروڑوں لوگوں کی روزمرہ زندگی کا حصہ ہے۔ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے ممالک میں یہ سرکاری زبان ہے اور بین الاقوامی تجارت، سفارت کاری اور میڈیا میں بھی اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔

عربی زبان کی لسانیاتی خصوصیات اسے دیگر زبانوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ یہ ایک انتہائی فصیح اور بلیغ زبان ہے جس میں الفاظ کی گہرائی اور معانی کی وسعت بے مثال ہے۔ عربی شاعری اپنی روانی، وزن، قافیے اور تشبیہات کی وجہ سے دنیا بھر میں مشہور ہے۔ اس زبان میں اظہار کی اتنی جہتیں ہیں کہ ایک ہی لفظ مختلف سیاق و سباق میں مختلف معانی دے سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عربی زبان سیکھنا ایک چیلنج بھی ہے اور ایک دلچسپ سفر بھی۔ یہ ایک ایسی کھڑکی ہے جو آپ پر ایک نئی دنیا کھول دیتی ہے، ایک ایسی دنیا جو ثقافت، تاریخ، ادب، فلسفہ، سائنس اور روحانیت سے مالا مال ہے۔

اردو اور عربی کے درمیان ایک گہرا لسانی اور ثقافتی رشتہ ہے۔ اردو زبان کی تشکیل میں عربی نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اردو کے بیشتر الفاظ عربی سے ماخوذ ہیں، خاص طور پر مذہبی، علمی، ادبی اور قانونی اصطلاحات۔ اس کے علاوہ عربی قواعد اور صرف و نحو کے اصولوں کا بھی اردو پر گہرا اثر ہے۔ مثال کے طور پر الفاظ جیسے کتاب، علم، مذہب، دنیا، آخرت، قانون، عدالت، وغیرہ عربی سے ہی اردو میں آئے ہیں۔ اس لسانی تماثل کی وجہ سے اردو بولنے والوں کے لیے عربی سیکھنا نسبتاً آسان ہوتا ہے اور عربی ادب اور ثقافت کو سمجھنا بھی سہل ہوجاتا ہے۔ یہ لسانی رشتہ دونوں زبانوں کے بولنے والوں کے درمیان ایک ثقافتی پل کا کام کرتا ہے۔

پاکستان میں عربی زبان کی ایک خاص اہمیت ہے۔ یہ ایک مذہبی اور ثقافتی ورثہ ہے۔ آئین کے آرٹیکل 31 اے کے تحت ریاست پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ عربی زبان کی تعلیم کو فروغ دے تاکہ قرآن پاک کی صحیح تلاوت اور فہم کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے تعلیمی اداروں میں عربی بطور لازمی مضمون پڑھائی جاتی ہے۔ پاک عرب تعلقات میں بھی عربی زبان ایک پل کا کردار ادا کرتی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان صدیوں پرانے مذہبی، ثقافتی، تجارتی اور تاریخی روابط ہیں۔ عربی زبان ان روابط کو مزید مضبوط بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔ روزگار کے سلسلے میں عرب ممالک جانے والے پاکستانیوں کے لیے عربی زبان کا علم بہت مفید ثابت ہوتا ہے۔ اس سے نہ صرف ان کے روزگار کے مواقع میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ انہیں عرب معاشرے اور ثقافت کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔

سیاسی اور معاشی تناظر میں بھی عربی زبان پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ پاکستان کا سرکاری اور نجی میڈیا اور سوشل میڈیا عرب ممالک کے لوگوں تک پاکستان کے بارے میں صحیح معلومات پہنچانے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس سے پاکستان کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مزید مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔ عرب دنیا کے ذرائع ابلاغ پر نظر رکھنے سے پاکستان کو خطے کی سیاسی اور معاشی صورتحال کو سمجھنے میں بھی مدد ملتی ہے۔ عرب ممالک پاکستان کے لیے ایک اہم تجارتی شراکت دار ہیں اور عربی زبان کا علم ان تجارتی تعلقات کو مزید فروغ دینے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

اپنے ذاتی تجربے کی بات کروں تو عربی زبان سے میرا تعلق ایک جذباتی اور روحانی نوعیت کا ہے۔ بچپن میں سعودی عرب میں قیام کے دوران جب میں نے پہلی بار عربی حروف تہجی سیکھنا شروع کیے تو مجھے یوں لگا جیسے کسی نئی دنیا کا دروازہ کھل گیا ہو۔ اسکول و کالج اور یونیورسٹیوں میں میرے اساتذہ نے، جن میں سعودی، پاکستانی، انڈین اور بنگلہ دیشی اساتذہ شامل تھے، میرا عربی سے شغف دیکھ کر مجھ پر محنت کی اور میری تحریروں کو سراہتے رہے۔ ان کی شفقت اور رہنمائی نے میرے دل میں عربی زبان کی محبت کا بیج بویا جو آج ایک تناور درخت بن چکا ہے۔ عربی زبان صرف میرے لیے ایک ذریعہ ابلاغ نہیں بلکہ ایک احساس، ایک جذبہ، ایک روحانی تجربہ ہے۔ جب میں قرآن کی تلاوت کرتا ہوں یا عربی شاعری پڑھتا ہوں تو مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں ایک ایسی دنیا میں پہنچ گیا ہوں جو خوبصورتی، حکمت اور روحانیت سے معمور ہے۔ عربی زبان میرے لیے ایک میراث ہے جس پر مجھے ہمیشہ فخر رہے گا۔ میں ان تمام اساتذہ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے عربی زبان سکھائی اور میرے دل میں اس کی محبت پیدا کی۔ ان کی محنت اور لگن نے میری زندگی پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔

عربی زبان ایک عظیم زبان ہے۔ یہ نہ صرف ایک زبان ہے بلکہ ایک تہذیب، ایک تاریخ، ایک ثقافت اور ایک روحانی ورثہ ہے۔ اس کی اہمیت کو سمجھنا اور اسے سیکھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے۔ اس عالمی دن کے موقع پر ہمیں عہد کرنا چاہیے کہ ہم اس زبان کی ترویج اور ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے اور اس کے ذریعے مختلف ثقافتوں کے مابین مکالمے، مفاہمت اور بھائی چارے کو فروغ دیں گے۔ یہ ایک ایسا سرمایہ ہے جو نہ صرف ہمارے ماضی کو حال سے جوڑتا ہے بلکہ ہمارے مستقبل کو بھی روشن کرتا ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp