سابق سفیر آصف درانی نے کہا ہے کہ بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے، فیڈریشن کو اس سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ وہ باشعور بلوچ جو اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نہیں ہیں وہ بھی مانتے ہیں کہ بلوچستان کا علیحدہ وجود ممکن نہیں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے تحفظات کو سنا جائے اور شکایات کا ازالہ کیا جائے۔
’ ہم ہر کسی کو خاص نظر سے دیکھتے ہیں‘
’ وی نیوز‘ کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں سابق سفیر کا کہنا تھا کہ ہم ہر کسی کو خاص نظر سے دیکھتے ہیں کہ کون ریاست مخالف ہے اور کون محب وطن ، ان چیزوں سے باہر نکل کرمسائل کا سیاسی حل ڈھونڈنا چاہیے۔
’ بلوچستان کو حصہ نہیں دیا جاتا‘
آصف درانی نے کہا کہ بلوچستان اسٹیک ہولڈر ہے لیکن اس کو حصہ نہیں دیا جاتا۔ عوام چاہتے ہیں کہ لو گ منتخب ہو کر آئیں لیکن راتوں رات ایسی جماعت بنا دی جاتی ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے چہیتے ہوں۔ ان کے من پسند لوگ ڈیلیور نہیں کر سکے ۔کچھ لوگوں کی سیٹ پکی ہوتی ہے کیونکہ جو حکومت بنانا چاہتے ہیں وہ ان کی ضرورت ہوتے ہیں چاہے وہ عوام کے لیے کوئی کام کریں یا نہ کریں اور وہ رشوت کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔
’ لاپتا افراد کی تعداد بڑھا چڑھا کر پیش کی جاتی ہے‘
لاپتا افراد کے معاملے پران کا کہنا تھا کہ یہ معاملہ بہت اہم ہے۔ چند سو افراد ضرور لاپتا ہیں جس کا حکومت خود بھی اعتراف کرتی ہے لیکن ان کی تعداد کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اگر وہ حراست میں ہیں تو ان کے ورثاء کا قانونی حق ہے کہ ان کا جرم بتایا جائے ۔
’بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا‘
سابق سفیر کا کہنا تھا کہ قومی سطح پر بلوچستان کو نظر اندازکیا گیا، میڈیا پر بھی صرف منفی خبریں دکھائی جاتی ہیں۔ وہاں کے مسائل، ترقی یا تعلیم کا کیا حال ہے اس کے بارے میں نہ کوئی بات کرتا ہے اور نہ میڈیا اس کو دکھاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی لیے بلوچستان نے آج تک ترقی نہیں کی کیونکہ ان کے مسائل پر کبھی کسی نے توجہ نہیں دی اور آج بھی اس کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔
’جلتی پر تیل کا کام کیا گیا‘
آصف درانی نے کہا کہ پاکستان دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے اور اس کے حل کے بجائے جلتی پر تیل کا کام کیا گیا۔ اگر تحفظات کو حل کر لیا جائے تو بیرونی عناصر کو راستہ نہیں ملے گا۔ اور بین الاقوامی قوتیں بھی بلوچستان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
’بلوچستان نہ جانے سے متعلق ایڈوائزریز‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ مختلف ممالک نے ایڈوائزریز جاری کیں کہ پاکستان جانے سے گریز کیا جائے لیکن اگر جانا ہے توبلوچستان یا خیبرپختونخوا نہ جائیں۔ ہم اس کو درست طریقے سے ہینڈل نہیں کر سکے ۔اس کے لیے سیاسی عمل بغیر کسی مداخلت کے چلے۔ اس سے اونر شپ رہتی ہے، ورنہ اسٹیک ہولڈر تو ہوتے ہیں لیکن نہ ہونے کے برابر۔
’بلوچستان میں دشمن بھی آجائے تو اس کااحترام کیا جاتا ہے‘
بلوچستان کی مہمان نوازی کے حوالے سے سابق سفیر نے کہا کہ بلوچستان قبائلی معاشرہ ہے۔یہاں دشمن بھی آجائے تو اس کااحترام کیا جاتا ہے۔انہوں نے بتایا کہ جب امریکا نے اسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کیا تو ملا عمر نے کہا کہ وہ ہماری پناہ میں ہے ہم آپ کے حوالے نہیں کریں گے اور پھر انہوں نے خود کو تباہ کر لیا لیکن مہمان کو امریکا کے حوالے نہیں کیا۔
’ کوئٹہ جاؤں تو بیگانگی کا احساس ہوتا ہے‘
سابق سفیر آصف درانی کا کہنا تھا کہ بلوچستان کو منی لندن کہا جاتا تھا۔ اس میں رول آف لا تھا۔ ہم رات دیر تک باہر رہ سکتے تھے لیکن اب یہ سب سہانا خواب لگتا ہے اور جب بھی کوئٹہ جاؤں تو بیگانگی کا احساس ہوتا ہے۔
’ بلوچستان کی محرومیاں حقیقی ہیں‘
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی محرومیاں حقیقی ہیں ، 80 کی دہائی میں گیس آئی جب کہ پشاور اور کراچی میں پہنچ چکی تھی اور گیس کا اتنا استعمال ہوا کہ لوگ ماچس کو بچانے کے لیے گیس بند نہیں کرتے تھےا ور اب صورتحال یہ ہے کہ گیس کے ذخائر 7,8سال سے زیادہ نہیں چلیں گے۔
’ 32سالہ سفر پلک جھپکتے ہی گزر گیا‘
سفارتکاری کے تجربے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ میرا 32سالہ سفارتکاری کا سفر پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ میں نےتمام ہمسایہ ممالک بشمول ایران، افغانستان، دہلی، لندن اور پھر نیو یارک میں بھی خدمات سر انجام دیں۔ نائن الیون سے تین ماہ قبل میں نیو یارک گیا اور میں نے امریکا کو تبدیل ہوتے دیکھا ۔
’صحافت کا شوق‘
آصف درانی نے اپنی تعلیم سے متعلق بتایا کہ کیمسٹری میں ماسٹر کرنے کے بعد مجھے صحافت کا شوق ہوا اور میں نے اپنی فیلڈ ہی تبدیل کر لی۔ گزشتہ تین سال سےاسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ساتھ منسلک ہوں اور تحقیق کا کام کررہا ہوں ۔