’اصل بات یہ ہے کہ جب تک سیاسی کارکن جیل جاتے رہیں گے، جب تک ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کو پابندِ سلاسل کیا جاتا رہے گا اور جب تک حکمران طبقے کا تشدد جاری رہے گا لوگ یہ کتاب پڑھتے رہیں گے۔‘
ترقی پسند ادیب اور صحافی حمید اختر نے اپنی کتاب ‘کال کوٹھری’ کے بارے میں جو اصول بیان کیا ہے اس سے تو لگتا ہے ہمارے ہاں یہ کتاب ہمیشہ پڑھی جاتی رہے گی۔ اس پر لکھنے کا عمل بھی اس اصول کے تابع ہو جائے تو اس پر لکھاریوں کو ہمیشہ قلم اٹھاتے رہنا ہوگا کیونکہ فیض احمد فیض کا فرمایا ‘… لیکن اب ظلم کی معیاد کے دن تھوڑے ہیں’ یا پھر۔۔۔
‘ بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم ‘
صحیح ثابت نہیں ہوا۔ صورتِ حال اور بھی دگرگوں ہوئی ہے۔ سفینہ غمِ دل کہیں رکتا نظر نہیں آتا۔
کال کوٹھری پر بات کرنے کی ایک وجہ تو یہی ہے کہ اشاعت کے 72 سال بعد بھی یہ کتاب ہمارے لیے پہلے سے بڑھ کر حسبِ حال ہے کہ ہم نے خود کو نہ بدلنے کی قسم اٹھا رکھی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ ہمارے حالات بھی نہیں بدلتے۔ دلاور فگار نے کیا خوب کہا ہے:
‘ حالاتِ حاضرہ کو کئی سال ہو گئے’
یہ تو اس کے سیاسی پہلو کی بات تھی۔ جیلوں کے حالات بھی زیادہ نہیں بدلے۔ 1988 میں کتاب کے تیسرے ایڈیشن کی اشاعت کے موقعے پر حمید اختر نے لکھا تھا کہ 36 سال بعد بھی اس کتاب کی مانگ ویسی ہی ہے جیسی اشاعتِ اول کے وقت تھی ،جس میں ان کے خیال میں لکھاری کا زیادہ کمال نہیں بلکہ اصل میں جیلوں کی صورتِ حال جوں کی توں ہے،اس لیے ‘کال کوٹھری’میں دلچسپی برقرار ہے۔
حمید اختر کی یہ بات آج 36 سال بعد بھی درست ہے۔ 36 میں 36 جمع کر لیے جائیں تو یہ بن جاتے ہیں72 سال۔ اس سے دائروں میں ہمارے سفر کے عرصے کا تعین بھی ہو سکتا ہے۔
اس کتاب کے تذکرے کی وجہ صرف ہمارے موجودہ حالات پر اس کا اطلاق کرنا نہیں بلکہ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ رواں سال حمید اختر کی پیدائش کو سو سال پورے ہوگئے ہیں۔ لہذا اس تصنیف کا ذکر انہیں یاد کرنے کا بہانہ بھی ہے۔
میری دانست میں ‘کال کوٹھری” حمید اختر کی بہترین کتاب ہے۔ یہ ایک فرد کے درد سے شروع ہو کر کئی لوگوں کے درد کی داستان بن جاتی ہے۔ قید کے دنوں پر لکھی گئی تحریروں کو ‘حبسیاتی ادب’ کہا جاتا ہے اور اردو میں ‘کال کوٹھری’ اس ادب میں منفرد مقام کی حامل ہے۔ اس کتاب کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔
میرے خیال میں اس کی مقبولیت کی ایک بڑی وجہ وہ سادہ طرزِ بیان ہے جو بعد میں بھی حمید اختر کی تحریروں سے مخصوص رہا ۔ دوسرے ایڈیشن کا سرورق ممتاز مصور صادقین نے بنایا تھا۔
اس سے پہلے کہ ہم آگے چلیں حمید اختر کے جیل جانے کی وجہ ذرا جان لیتے ہیں:
’گورنر پنجاب کو اطمینان ہے کہ حمید اختر کی حرکات اس قسم کی ہیں کہ وہ کچھ گڑبڑ کرنے والا ہے اس لیے سیفٹی ایکٹ کی دفعہ تین کے تحت اسے چھ ماہ کے لیے احتیاطی نظر بندی میں رکھا جاتا ہے۔‘
جس سیفٹی ایکٹ کے خلاف حمید اختر آواز اٹھا رہے تھے اس کا عذاب ان کے گھر کی دہلیز تک آن پہنچا تھا۔ یہ 9 مئی 1951 کی بات ہے۔گھر میں بیمار بہن تھی جسے گزشتہ پندرہ برسوں میں پلورسی ،جگر اور انتڑیوں کی خرابی نےچر لیا تھا۔اسے بھائی نے جھوٹ موٹ یہ بتایا کہ بس پوچھ تاچھ کے لیے تھانے طلب کیا گیا ہے اس لیے دو تین گھنٹے تک لوٹ آؤں گا۔ روانگی کے وقت بہن کو کھڑکی میں کھڑے دیکھ کر اس کے اطمینانِ خاطر کے لیے پولیس اہلکاروں سے گفتگو اور ہنسنے کی ایکٹنگ کی:
‘ جب تک تانگہ مکان کے سامنے رہا میں بے وقوفی کے جملے بولتا اور خوامخواہ قہقہے لگاتا رہا۔’
سنت نگر کے اس باسی کا مسکن پرانی انارکلی کے تھانے کی حدود میں آتا تھا جہاں ضروری کارروائی کے بعد انہیں سنٹرل جیل منتقل ہونا تھا جو ان کے کئی ہم صفیروں کی منزل بھی تھی۔ جن میں دادا فیروز الدین منصور، محمد افضل، ظہیر کاشمیری، شوکت منٹو اور احمد ندیم قاسمی شامل تھے۔
حسن عابدی شاہی قلعے میں دو ماہ سختیاں جھیل کر یہاں پہنچے تھے۔ ان کے ساتھی پہلی نظر میں انہیں پہچاننے سے قاصر رہے۔ حمید اختر کے بقول’اس کے چہرے پر زردی چھائی ہوئی تھی اور اس کے خشک ہونٹ اس طرح نظر آرہے تھے گویا ابھی ابھی کسی نے ان پر لکڑی کے برادے کا چھڑکاؤ کیا ہو۔‘
یہ وہ حسن عابدی ہیں جنہوں نے یہ لازوال شعر کہا تھا:
کچھ عجب بوئے نفس آتی ہے دیواروں سے
ہائے زنداں میں بھی کیا لوگ تھے ہم سے پہلے
حمید اختر کو جیل میں بہن کا رہ رہ کر خیال آتا تھا۔ اردگرد اپنے ساتھیوں کی حالت دیکھ کر بھی جی جلتا تھا۔ کتاب میں سب سے زیادہ محبت احمد ندیم قاسمی کے لیے جھلکتی ہے جنہیں ضمیر کی آواز سننے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی :
‘سچے اور عظیم فنکار کی طرح اس نے آرام اور اطمینان کی زندگی کو چھوڑ کر مصیبتوں کا خاردار راستہ منتخب کیا۔’
کبھی ان کا دھیان دادا فیروز الدین منصور کی طرف جاتا جنہوں نے انگریز دور میں جیل کاٹی اور آزاد مملکت میں بھی ان کے دن نہیں پھرے تھے۔ حمید اختر کے بقول’ سی کلاس میں زمین پر لیٹا ہوا دمے اور کھانسی سے ہانپ رہا ہے۔یہ کیسی تبدیلی ہے؟ یہ کیسی آزادی ہے؟ یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔؟’
قیدیوں میں ظہیر کاشمیری بھی تھے جو نیورستیھنیا کے پرانے مریض تھے لیکن جیل میں بھی ان کی شخصیت میں شوخی برقرار تھی اور وہ ڈاکٹر کو اپنے سوالات سے زچ کر دیتے ہیں۔
ظہیر کاشمیری کا ذکر ہے تو ان کے دو شعر سن لیجیے:
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے
میں ہوں وحشت میں گم ،میں تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولہ رقص میں رہتا ہے ،صحرا میں نہیں رہتا
کوٹھری میں زندگی گزارنے کا تلخ تجربہ اذیت ناک تھا ،کھانا زہر مار کر لیا جاتا، مچھر رات بھر تنگ کرتے اور بھی کئی جھمیلے تھے۔ایک چیز جس کی کمی سوہان روح تھی وہ چائے تھی۔ جیل کے قواعد میں سی کلاس قیدی اس کے حق دار نہ تھے۔ چائے کے بارے میں ایک واقعہ جو ایثار کی ایک مثال بن گیا وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔
ایک دن بی کلاس کے قیدیوں محمد افضل اور شوکت منٹو کے لیے چائے آئی تو سی کلاسیے پیالے ہاتھ میں لے کر گڑوی کی طرف للچائی نظروں سے دیکھنے لگے۔ محمد افضل نے سب کے پیالوں میں دو دو گھونٹ چائے کے انڈیل دیے۔ اس موقعے پر احمد ندیم قاسمی نے اپنی چائے دادا منصور کے پیالے میں الٹتے ہوئے کہا” دادا کو اس ضعیفی میں چائے کی ہم سے زیادہ ضرورت ہے اور پھر وہ عادی بھی تو بہت تھے۔’
حمید اختر نے اس جذبے کی تحسین اس طرح کی ہے:
‘چائے کے دو گھونٹوں کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی مگر بے کسی اور بیچارگی کے اس وقت میں اس چھوٹی سی قربانی نے منصور کے چہرے پر ایسا رنگ بھر دیا کہ خوشی اس کی آنکھوں سے چھلکنے لگی۔اس نے کوئی بات نہیں کی مگر اس کی نگاہیں کہہ رہی تھیں کہ ندیم نے اس کو چائے کے نہیں آب حیات کے گھونٹ پلا دیے ہیں… سب نے اپنے پیالوں سے تھوڑی تھوڑی چائے منصور کے پیالے میں الٹ دی اور سب اس چھوٹی سی قربانی پر مسرور اور مطمئن نظر آتے تھے۔’
جیل میں قیدیوں کو صعوبتیں رنج میں مبتلا کرتی ہیں لیکن پیچھے پیاروں پر کیا گزرتی ہے یہ الگ داستان غم ہے اور سب سے زیادہ تکلیف خواتین بھوگتی ہیں۔ لیکن آفرین ہے کہ وہ تلخیٔ ایام کا شکوہ قیدی کے روبرو نہیں کرتیں۔ حمید اختر کی اس کتاب میں ان کی بیمار بہن کا کردار مہرو وفا کے پیکر کے طور پر ابھرتا ہے۔
جیل میں بہن سے ملاقات کے تاثرات کال کوٹھری میں کچھ یوں بیان ہوئے ہیں:
‘اس ملاقات کی تکلیف ہم دونوں کو تھی مگر ہم میں سے کسی نے کوئی گلہ نہیں کیا … اپنی تکلیفوں کا حال میں اس کو سنانا نہیں چاہتا تھا اور اپنی پریشانیوں کا حال وہ مجھے بتانا نہیں چاہتی تھی… اس عظیم شہر لاہور میں کاروں ہوٹلوں اور بنگلوں کے بھرے ہوئے بارونق شہر میں میری بہن ایک چھوٹے سے محلے سنت نگر کے ایک چھوٹے سے مکان میں بالکل اکیلی پڑی رہ گئی ہے۔ وہ بہن جو پچھلے پندرہ سال سے بیمار تھی ۔’
کلفتوں سے معمور دنوں میں خوشی کا بس ایک وسیلہ تھا کہ یاروں کی منڈلی تھی جو کسی کلاس پر یقین نہیں رکھتی لیکن انہیں کلاس کے نام پر جیل میں ہی ایک دوسرے سے جدا کر دیا گیا تھا۔ محمد افضل اور شوکت منٹو تو پہلے سے بی کلاس میں تھے لیکن جب احمد ندیم قاسمی سی سے پروموٹ ہو کر بی کلاس میں چلے گئے تو حمید اختر بجھ کر رہ گئے۔
‘جیل کی اس ڈیڑھ دو ماہ کی زندگی میں میرے لیے غالباً یہ سب سے بڑا صدمہ تھا ۔ ندیم اگرچہ بہتر جگہ پر جارہے تھے لیکن کمپنی چھوٹ جانے کی وجہ سے وہ مجھ سے بھی زیادہ پریشان تھے… ان کے جانے کے بعد تاش کھیلنے کا مزہ تو بالکل جاتا رہا۔’
حمید اختر نے کپڑے دھونے کے معاملے میں خود کو پھسڈی قرار دیا ہے اور اس کام میں قاسمی صاحب کے ہنر کی داد دی ہے جن میں ان کے خیال میں اس کام کی خداداد صلاحیت تھی ۔ سبزی کاٹنے کی ذمہ داری بھی انہی کے سپرد تھی۔
ڈھائی ماہ لاہور میں پس دیوار زندان رکھنے کے بعد حمید اختر کو ملتان بھیج دیا گیا۔
تھانے سے پولیس کی موٹر پر ریلوے اسٹیشن کے لیے سفر کرتے ہوئے اپنی ذہنی کیفیت حمید اختر نے بہت عمدگی سے بیان کی ہے۔ لارنس روڈ سے گزرتے ہوئے اس سے وابستہ یادیں عود کر آتی ہیں۔ ریگل چوک پر پہنچ کر ان کے بقول ‘ایک دم سے جیسے میری ساری حسیں بیدار ہو گئیں۔’ مال روڈ پر چہل پہل دیکھ کر ان کا جی شاد ہوا۔ بیڈن روڈ سے ایک مہ وش سائیکل سوار کو انہوں نے ٹیمپل روڈ کی طرف جاتے دیکھا ۔ یہ لمحے نظروں کے سامنے شتابی سے گزر گئے اور وہ ہال روڈ، رتن چند روڈ ،پاکستان ٹائمز کے دفتر اور سرکلر روڈ سے گزرتے ہوئے ریلوے اسٹیشن پہنچ گئے جہاں سے انہیں ملتان جانے والی ٹرین میں بیٹھنا تھا۔
اس کتاب کا دوسرا حصہ ڈسٹرکٹ جیل ملتان کے شب روز کی کہانی ہے جس کا آغاز فراق گورکھپوری کے شعر سے ہوتا ہے:
کچھ قفس کی تیلیوں سے چھن رہا ہے نور سا
کچھ فضا کچھ حسرتِ پرواز کی باتیں کرو
لاہور میں حمید اختر ہم سفروں کے درمیان تھے جن سے ان کا ذہنی ربط ضبط تھا،اس لیے ان کے ساتھ گفتگو کے موضوعات اور تھے لیکن ملتان میں ان قیدیوں سے واسطہ تھا جو مختلف مقدمات میں ماخوذ ہو کر یہاں پہنچے تھے۔ ان میں ایسے بھی تھے جنہیں پھانسی ہونی تھی ۔ اس لیے یہاں درد کا رنگ لاہور سے جدا تھا۔
جیل کے افسروں سے وہ یہاں بھی نالاں ہی رہے جن میں ہمدردی نام کی کوئی چیز نہیں تھی:
‘ریا کاری جیل کے افسروں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔’
ملتان میں ان کے بچپن کے دوست حبیب پاسلوی رہتے تھے لیکن قواعد کے مطابق خونی رشتہ نہ ہونے کے سبب وہ یار عزیز سے مل نہیں سکتے تھے۔ اب سرکاری اہلکاروں کو کون سمجھائے کہ انسانی تعلقات میں ایک بلند سطح وہ بھی ہوتی ہے جہاں بعض دوست سگوں سے بڑھ کر سگے ہوتے ہیں۔ حبیب پاسلوی نے ملاقات نہ ہونے کی کسر اس طرح نکالی کہ جیل میں دوست کے لیے بہت ساری چیزیں بھجوائیں جس کے بعد حمید اختر کو جیل میں پہلی دفعہ تحفظ کا احساس ہوا۔
حمید اختر کی یہ کتاب اسی حبیبِ لبیب حبیب پاسلوی کے نام ہے۔
جیل کی تنہائی میں ہیر وارث شاہ کا نسخہ ان کے بہت کام آیا جسے انہوں نے با آواز بلند پڑھ کر خاموشی اور سکوت توڑنے کی سعی کی۔ اس پر ایک ہیر کے شیدائی سپاہی نے بھی اسے پڑھنے میں دلچسپی ظاہر کی ۔ حمید اختر نے لکھا:
‘اس نے اونچے سروں میں ہیر پڑھنا شروع کر دی ۔ اس کی آواز بہت اچھی تھی ۔ گھنٹہ بھر تک وہ ہیر گاتا رہا اور میں سنتا رہا ۔اس طرح اہل پنجاب کے اس عشقیہ قصے کے زور نے میری مصیبت کے اس پہاڑ سے دن میں چند لمحوں کے لیے خوشیوں کے موتی بھر دیے۔’
حمید اختر نے ایک قصہ لکھا ہے جسے پڑھ کر آج بھی پڑھنے والوں کا ہاتھ دل پر پڑتا ہے۔ حکومت دفعہ ایک سو نو کے تحت آوارہ گردی کے الزام میں شہریوں کو دھر لیتی تھی۔ اس رگڑے میں بہت سے بے گناہ آجاتے تھے۔
حمید اختر ایک بزرگ سے متعارف کرواتے ہیں جسے ایک دن انہوں نے زار وقطار روتے دیکھا۔ اس نے بتایا کہ وہ دو روز سے یہاں ہے اور آج اس کی بیٹی کی شادی ہے۔ پولیس نے ناحق اسے ملتان اسٹیشن پر اپنا کوٹا پورا کرنے کے لیے آوارہ گردی کے الزام میں گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا۔
حمید اختر نے لکھا:
‘ اس بے چارے کی دنیا برباد ہو گئی۔ وہ اس طرح رو رہا تھا کہ مجھ سے دیکھا نہ گیا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کا کوئی ضامن نہیں ہے، اسے کسی پر یہ امید نہیں ہے کہ وہ اس کی ضمانت دے گا اسے تو صرف یہ فکر تھی کہ کسی نہ کسی طرح اپنے گھر اطلاع پہنچا دے… میں اس غریب بڈھے اور اس کے گھر والوں کی تقدیر کے بارے میں غور کرتا رہا اور اس کی جوان بیٹی کی زندگی کے بارے میں سوچتا رہا جو ہاتھوں میں مہندی لگائے اپنے باپ کے انتظار میں بیٹھی ہو گی اور اسے اتنا بھی پتہ نہ چل سکے گا کہ وہ کہاں ہے؟ زندہ ہے یا مر گیا ؟’
حمید اختر سال بھر نظر بند رہنے کے بعد رہا ہوئے تو’ چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا ‘ کا نقشہ تھا ۔اس قید کا مثبت پہلو بس یہی تھا کہ ‘کال کوٹھری’ جیسی عمدہ کتاب وجود میں آگئی جس پر ہم آج بات کر رہے ہیں اور اس میں درج یہ بات تو ہمارے اپنے زمانے پر بھی صادق آتی ہے:
‘اس چار پانچ سال کے عرصے میں حکومت نے ایک ہی کام سیکھا تھا کہ اس خرابی، اس ظلم اور جبر کے خلاف جہاں سے آواز بلند ہوتی ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کرو ۔اس آواز کو دبا دو۔ کاش وہ اتنا سوچتے کہ یہ آواز کہاں سے اور کیونکر بلند ہو رہی ہے۔‘
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔