تتلیوں کا شوقین معمر شخص جس کے کلیکشن پر جوان بھی رشک کریں

منگل 31 دسمبر 2024
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

کم عمری میں ہی تتلیاں پکڑنے کے شوق نے کینیا کے ایک شخص کو 74 سال کی عمر تک 42 لاکھ تتلیاں جمع کر کے تتلیوں کا ایک بہت بڑا محقق اور تتلیوں کی ہزاروں قسم کے ایک کلیکشن کا مالک بنا دیا۔

یہ بھی پڑھیں: تتلیاں پکڑنے والے غیرملکی سیاحوں پر 2 لاکھ ڈالر جرمانہ عائد

وائس آف امریکا کے مطابق اس کہانی کا آغاز اس وقت ہوا جب کینیا کے دارا لحکومت کے مضافات میں ایک 5 سالہ بچے اسٹیو کولنز کو دوسرے عام بچوں کی طرح رنگ برنگی تتلیاں پکڑنے اور انہیں اپنی کتابوں میں محفوظ کرنےکا شوق پیدا ہوا۔

یہ شوق اس وقت مشغلہ بن گیا جب اس کے والدین نے جنہیں ان کے کچھ دوستوں نے تتلیاں پکڑنے کا ایک جال تحفے میں دیا تھا، کانگو کے ایک دورے کے بعد تتلیاں جمع کرنے میں کولنز کی حوصلہ افزائی کی ۔ اس جال کے استعمال نےکولنز کو زیادہ تعداد میں تتلیاں پکڑنے میں مدد دی اور یوں وہ اس کام کے ماہر بن گئے۔

پھررنگ برنگی تتلیوں کو پکڑ کر اپنی کتابوں اور کاپیوں میں خشک کر کے جمع کرنے کا یہ مشغلہ 15 سال کی عمر تک کولنز کے لیے تتلیوں پر ریسرچ کے جنون میں بدل گیا اور انہوں نے دوسرے ملکوں مثلاً نائیجیریا جا کر تتلیاں جمع کرنے پر اپنا فارغ وقت صرف کرنا شروع کر دیا۔

پھر کولنز نے جو پیشے کے اعتبار سے ایک زرعی ماہر ہیں، اپنے 20 سالہ کیرئیر کے دوران اپنا تمام فارغ وقت تتلیوں پر ریسرچ کے لیے وقف کردیا ۔ انہوں نے سنہ 1997 میں تتلیوں پر ریسرچ کا ایک ادارہ ’افریقین بٹر فلائی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ‘ قائم کیا۔ سنہ 1998 اور سنہ 2003 کے درمیان انہوں نے اسے ایک تعلیمی مرکز کے طور پر چلایا جس دوران انہوں نے اسے عام پبلک کے لیے کھول دیا تھا۔

مزید پڑھیے: ‘تتلی کو زندہ رہنے دو’، یہ زندگی کی ضمانت ہے:  سوات کے طلبا کی تحقیق

کولنز کے پاس اس وقت افریقہ بھر سے جمع کی گئی 12 لاکھ خشک کی گئی تتلیاں ایسی ہیں جنہیں انہوں نے فریمز میں بڑی نفاست سے پن کر کے اور الماریوں میں قطاروں کی صورت میں محفوظ کر کے رکھا ہے جب کہ 30 لاکھ دوسری تتلیوں کو انہوں نے لفافوں میں محفوظ کر کے رکھا ہوا ہے۔

ان کے ایک اعشاریہ 5 ایکڑ زمینی رقبے پر سینکڑوں متنوع اقسام کے درخت اور پھولدار جھاڑیاں ایک بہت شاندار جنگل کی شکل اختیار کر چکی ہیں جہاں سینکڑوں زندہ تتلیاں پھولوں پر رقص کرتی منڈلاتی پھرتی ہیں اور کبھی کبھی وہ کولنز کے ہاتھ پر بھی بیٹھ جاتی ہیں۔

کولنز نے بتایا کہ ان خشک کی گئی تتلیوں کو تاریک جگہوں پر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے اور پھر انہیں جہاں رکھا جائے وہ ایسی جگہ ہونی چاہیے جہاں انہیں دوسرے کیڑے ، پیرا سائٹس یا حشرات الارض انہیں نہ کھا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس چیز کو بھی یقینی بناتے ہیں کہ انہیں محفوظ رکھنے کے لیے سال میں ایک بار کیڑے مار ادویات کا استعمال بھی کریں۔

ایک ماہر ماحولیات جولین بیلس نے جو افریقہ سے اسپیشلائزیشن کر رہے ہیں اور آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی میں ایک وزیٹنگ پروفیسر ہیں نے بتایا کہ انہوں نے 20 سال میں کولنز کے لیے تتلیاں جمع کرنے میں مدد کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان لاکھوں تتلیوں میں سے زیادہ تر مکمل طور پر نایاب ہیں کیوں کہ ماحولیاتی تبدیلی کے خطرے سے دوچار افریقہ میں طویل دورانیوں کی خشک سالی اور شدید سیلابوں کے نتیجے میں جنگلات اور تتلیوں کے مسکن تباہ ہورہے ہیں۔

بیلس کہتے ہیں کہ کولنز کی تتلیوں کی اس کلیکشن کو دنیا بھر کے لیے قابل رسائی بنانے کے لیے اسے ڈیجیٹائز کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اسے جو کوئی بھی سنبھالے اسے ایک ایسا مستحکم ادارہ ہونا چاہیے جس کے پاس کافی فنڈز ہوں اور جو محفوظ ہو۔

مزید پڑھیے: سائنسدانوں نے 27 کے قریب جنگلی اور آبی حیات کی نئی اقسام دریافت کر لیں

واشنگٹن کے اسمتھسونین انسٹی ٹیوٹ کے ایک ماہر حشرات الارض تقریباً 30 سال قبل کولنز سے ملے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے کلیکشنز 60 سال سے زیادہ عرصے میں ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں اہم معلومات فراہم کر سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا جب آپ کو نئی معلومات حاصل ہوتی ہیں یا آپ کے پاس مختلف ٹیکنالوجیز آجاتی ہیں یا آپ کے ذہن میں مختلف سوالات اٹھتے ہیں تو آپ در حقیقت ان ٹھوس نمونوں تک مسلسل رسائی حاصل کر کے مزید معلومات یا اپنے سوالات کے جواب تلاش کر سکتے ہیں۔

کولنز کو فکر یہ ہے کہ اب وہ زیادہ عرصہ تک اپنی ریسرچ جاری نہیں رکھ سکیں گے ۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی سب سے قیمتی تتلی کی قیمت 8 ہزار ڈالر ہے اور ان کو فکر ہے کہ وہ چوری ہو سکتی ہے۔ تاہم انہیں امید ہے کہ وہ اپنے اس تتلی گھر کو کسی فرد یا ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو فروخت کردیں گے۔

ان کے ادارے ایفریقین بٹر فلائی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کو چلانے کا خرچ بہت زیادہ ہے۔ تتلیوں اور پتنگوں کی کلیکشن اور ریسرچ سے متعلق ویب سائٹ ’سوسائٹی آف افریقہ‘ پر اس انسٹی ٹیوٹ کا سال 2009 میں پوسٹ کیا گیا سالانہ بجٹ 2 لاکھ ڈالر پر مشتمل تھا۔

کولنز کا اندازہ ہے کہ ان نمونوں اور دوسرے اثاثوں کی لاگت 80 لاکھ ڈالر ہے ۔

یہ بھی پڑھیے: لالٹین مکھی کے بارے میں اتنا برا کیا ہے؟ اسے دیکھتے ہی کیوں مار دیا جانا چاہیے؟

انہوں نے کہا کہ یہ کئی دہائیوں سے میرا مشغلہ رہا ہے اور میں نے اب تک جو کچھ کیا ہے میں اس پر کوئی قیمت نہیں لگا سکتا۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ میں اس وقت یہ یقینی بنانے کی کوشش کررہا ہوں کہ جب میں اس دنیا میں نہ رہوں تو میری جمع شدہ تتلیوں کا یہ خزانہ محفوظ ہاتھوں میں ہو۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

27ویں آئینی ترمیم کیخلاف احتجاجاً لاہور ہائیکورٹ کے جج جسٹس شمس محمود مرزا بھی مستعفی

عالمی جریدوں نے تسلیم کیا کہ عمران خان اہم فیصلے توہمات کی بنیاد پر کرتے تھے، عطا تارڑ

جازان میں بین الاقوامی کانفرنس LabTech 2025، سائنس اور لیبارٹری ٹیکنالوجی کی دنیا کا مرکز بنے گی

دہشتگرد عناصر مقامی شہری نہیں، سرحد پار سے آتے ہیں، محسن نقوی کا قبائلی عمائدین خطاب

لڑکیوں کی اسمگلنگ: ایک متاثرہ لڑکی نے ٹرمپ کے ساتھ ’گھنٹوں گزارے‘، ایپسٹین کی نئی ای میلز سامنے آگئیں

ویڈیو

گیدرنگ: جہاں آرٹ، خوشبو اور ذائقہ ایک ساتھ سانس لیتے ہیں

نکاح کے بعد نادرا کو معلومات کی فراہمی شہریوں کی ذمہ داری ہے یا سرکار کی؟

’سیف اینڈ سیکیور اسلام آباد‘ منصوبہ، اب ہر گھر اور گاڑی کی نگرانی ہوگی

کالم / تجزیہ

افغان طالبان، ان کے تضادات اور پیچیدگیاں

شکریہ سری لنکا!

پاکستان کے پہلے صدر جو ڈکٹیٹر بننے کی خواہش لیے جلاوطن ہوئے