آگے بڑھنے سے پہلے ہمیں تسلیم کر لینا چاہیے کہ تاریخ اور جغرافیے تک کو متاثر کر دینے والے بڑے واقعات یوں اچانک رونما نہیں ہو جاتے، قدرت ان کا اہتمام کرتی ہے جس کے تحت کوئی عظیم شخصیت اپنے وقت کے مطابق ظہور پذیر ہو کر اپنے حصے کا کام کر کے چلی جاتی ہے۔ یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک کوئی قائد اعظم آ کر اس عظیم تحریک کو اس کی منزل تک نہ پہنچا دے۔
ہم آزادی سے محروم ہوئے تو ہمارے بزرگوں میں کئی طرح کے احساس پیدا ہوئے۔ پہلا اور مقبول عام احساس یہی تھا کہ تلوار اٹھائیں اور استعماری طاقت کو مار بھگائیں۔ ہم نے یہی کیا۔ سراج الدولہ سے لے کر ٹیپو سلطان شہید تک اور تحریک مجاہدین سے لے کر 1857 کی جنگ آزادی تک لیکن ایسی ہر کوشش نے ہمیں منزل سے دور کیا۔
ہماری تاریخ میں سر سید پہلے آدمی ہیں جنہوں نے سوچا کہ ہم نے جنگ آزما دیکھی، اب کچھ اور تجربہ بھی کرنا چاہیے۔ انہوں نے قوم کو علم اور حکمت سے کام لینے کا سبق سکھایا۔ ہماری تاریخ میں یہ بہت بڑی جست تھی۔ قوموں پر جب آزمائش آتی ہے اور وہ بڑے بڑے تجربات سے گزرتی ہیں تو سب کچھ خواہشات کے عین مطابق نہیں ہوتا کچھ مختلف بھی ہو جاتا ہے، کبھی کوئی حادثہ ہو جاتا ہے اور کبھی تو کوئی اپنا ہی راستہ روک کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ سر سید کے تجربے میں بھی یہی کچھ ہوا جس کے نتیجے میں قوم ایک زبردست نظریاتی الجھن کا شکار ہو گئی۔ کسی مسلمان کے لیے اس سے بڑی پریشانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ محسوس کرے یا اسے باور کرا دیا جائے کہ جدید علوم کے قریب بھی پھٹک گئے تو ایمان جاتا رہے گا۔ اس الجھن کی ایک انتہا پر سر سید تھے تو دوسری پر علامہ شبلی نعمانی۔ قوم چکی کے ان 2 پاٹوں کے بیچ پس رہی تھی کہ اقبال تشریف لے لائے۔
اقبال ہماری نظریاتی تاریخ کے جد امجد ہیں۔ انہوں نے ہمیں ابن ماجہ کی حدیث یاد دلائی کہ حکمت مومن کی گم شدہ میراث ہے لہٰذا جہاں سے پاؤ، حاصل کرو۔ شرط صرف ایک ہے، تمہیں یہ کام اپنی بنیاد پر قائم رہتے ہوئے کرنا ہے پھر انہوں نے خطبہ الہٰ آباد میں ایک اور بڑی بات کہی۔ انہوں نے بتایا کہ ہمارے مسائل کی سب سے بڑی بنیاد امپیریلزم یعنی ملوکیت اور بادشاہت ہے لہٰذا اس سے نجات حاصل کی جائے۔ تیسری اور بہت بڑی بات انہوں نے ہمیں یہ سمجھائی کہ رد عمل کی نفسیات میں ہلاکت ہے۔ زندگی یقیناً خودی، حرکت اور عمل میں ہے لیکن اس کے لیے جدو جہد کے درست میدان اور لڑنے کے لیے ہتھیار کا انتخاب ضروری ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں نے 2 ڈھائی سو سال کی طویل جدوجہد کے بعد جو کامیابی حاصل کی، اس کی بنیاد یہی 3 نکاتی حکمت عملی ہے۔ قائد اعظم اس تحریک کے قائد، قافلہ سالار اور اس شاندار نظریاتی روایت کے امین ہیں۔
اقبال جو راستہ تجویز کر رہے تھے، مسلم برصغیر میں اگر کسی نے اس کی روح کو سمجھا اور اسے خیال سے حقیقت کا روپ دیا تو وہ دست معجزہ نما صرف اور صرف قائد اعظم کا ہے۔ اردو نظم کے عظیم شاعر مجید امجد مرحوم نے کہا تھا:
کوئی یقین کرے گا، اک ایسی عظمت بھی
کبھی تھی حصۂ دنیا، کبھی تھی جزوِ جہاں
ہم خوش قسمت ہیں کہ وہ عظمت قائد اعظم کی شکل میں ہمیں عطا ہوئی۔ یہ قائد اعظم نے ہمیں سکھایا کہ اگر دشمن قوی ہو، اس کا اسلحہ خانہ تمھارے اسلحے پر غالب آ جائے تو پھر تمہیں کس اسلحے سے کام لینا ہے۔ یہ بھی انہوں نے ہی ہمیں سکھایا کہ زبان تلوار سے زیادہ تیز دھار ہے کیوں کہ دلیل اور منطق کی قوت اسے طاقت ور بناتی ہے۔ تم اگر حکمت و دانائی کا دامن تھامے رکھو گے تو اسی طاقت کے سہارے بڑے سے بڑے دشمن کو زیر کر لو گے خواہ وہ انگریز ہی کیوں نہ ہوں جس کے اقتدار کا سورج کبھی غرور نہیں ہوتا۔ قائد اعظم نے ہمیں یہ بھی سکھایا کہ ووٹ کی طاقت تلوار کی طاقت سے کہیں زیادہ ہے۔ اپنی لڑائی اس ہتھیار سے مسلح ہو کر لڑو گے تو کوئی وجہ نہیں کہ کامیابی تمہارے قدم نہ چومے۔
یہ اقبال کی حکمت اور قائد اعظم کی بصیرت بھری قیادت ہی کا کرشمہ ہے کہ برصغیر کے مسلمان 2 دشمنوں یعنی طاقت ور انگریز اور تنگ نظر و مکار ہندو کو چاروں شانے چت کر کے اپنی منزل تک پہنچ پائے۔ اقبال اور قائد اعظم کی عظمت صرف یہ نہیں کہ ان کی فراست اور قیادت کے نتیجے میں ہمیں پاکستان حاصل ہوا بلکہ یہ بھی ہے کہ 20ویں صدی کی آزادی کی تمام تحریکوں نے اسی راستے پر چل کر کامیابی حاصل کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے بزرگ صرف ہمارے ہی محسن نہیں ہیں، پوری انسانیت کے محسن ہیں۔
ہمارے اس کامیاب نظریاتی سفر کے 2 پڑاؤ مزید ہیں۔ اگر انہیں نظر انداز کر دیا تو ہم نہ تحریک آزادی کو درست طور پر سمجھ سکیں گے اور نہ اپنے عہد کے لیے ہی درست حکمت عملی تیار کر سکیں گے۔
اس تحریک کا ایک پڑاؤ مولانا اشرف علی تھانوی ہیں جنہوں نے اپنی خداداد بصیرت سے کام لے کر محراب و منبر کو گاندھی جی کے مکر اور کانگریس کے فریب سے بچایا۔ یہ بہت بڑا کارنامہ تھا۔ اس کے بعد مولانا مودودی کی علمی تحریک ہے جنہوں نے اقبال کی فکر کو آگے بڑھاتے ہوئے ملوکیت اور قومیت کے فرسودہ تصورات پر کاری ضرب لگائی۔ مولانا مودودی کی دوسری خدمت جہاد کے تصور کے بارے میں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسلام میں نجی جہاد کا کوئی تصور نہیں۔ یوں انہوں نے سماج کو منتشر کرنے کا راستہ بند کر دیا۔
مسلم برصغیرکے بعد ترکیہ کے نظریاتی سفر پر نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے ترک بھائی بھی کم و بیش اسی تجربے سے گزرے۔ ترکیہ میں قدیم و جدید کی بحث ظاہر ہے کہ پرانی ہے لیکن سلطان سلیم اول کے دور میں اس میں شدت پیدا ہوئی پھر اتحاد اور ترقی نامی سیاسی تحریک کا زمانہ آتا ہے۔ اس تحریک کے نتیجے میں کم و بیش ایسی ہی صورت حال پیدا ہوئی جیسی سر سید کی تحریک کے نتیجے میں مسلم برصغیر میں پیدا ہوئی تھی۔ اس کے بعد کا سفر بڑا شان دار ہے۔ محمت عاکف ایرصوئے بالکل اقبال کی طرح ہی ترک سماج کو علم، اعتدال اور بیداری کا سبق دیتے ہیں اور مصطفیٰ کمال اتاترک اس قافلے کو منزل تک پہنچا دیتے ہیں یعنی قوم کو جنگ و جدل سے نکال کر سیاسی عمل کے ذریعے استحکام کی راہ پر گامزن کر دیتے ہیں۔ یوں یورپ کا مرد بیمار رجب طیب اردوان جیسی وزنری شخصیت کی راہنمائی میں مسلم دنیا کی قیادت کے منصب تک جا پہنچتا ہے۔
بنیادی سوال یہ ہے کہ اس ولولہ انگیز داستان میں آج ہمارے لیے سبق کیا ہے؟ تاریخ میں اس سبق کے ابواب جگہ جگہ پڑھنے کو ملتے ہیں۔ تازہ ترین سبق ہمیں غزہ میں ملا ہے۔ اسرائیل کی سفاکی اور غیر انسانی طرز عمل کے ردعمل میں ہمارے بھائی اس سے جا ٹکرائے جو اسی موقع کا منتظر تھا۔ یہ عمل بالکل 1857 کی جنگ آزادی جیسا تھا جب ہمارے بزرگ کسی منصوبہ بندی اور ضروری وسائل کے بغیر انگریز سے جا ٹکرائے تھے۔ نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا۔ اس کے مقابلے میں اگر فلسطین میں اقبال اور قائد اعظم کا راستہ اختیار کیا جاتا تو کامیابی مقدر بنتی۔ تو مجھے جو بات کہنی ہے، یہ ہے کہ ترکیہ کا تجربہ ہو یا پاکستان کا، کامیابی کا راستہ علم، دلیل اور ووٹ کی طاقت سے کھلتا ہے۔ بابائے قوم کے 148ویں یوم ولادت کا سب سے بڑا پیغام یہی ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔