مردِ بحران جاوید میانداد نے بارہا پاکستانی ٹیم کو مشکلات کے بھنور سے نکالا اور کئی ایک دلکش اور ناقابلِ فراموش اننگز کھیل کر جیت سے ہمکنار کیا۔
میچ کی آخر گیند تک ڈٹے رہنا اور جیت پر نگاہیں جمائے رکھنا ان کا خاصہ تھا۔ مگر میانداد کا شارجہ میں لگایا گیا ایک چھکا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یادگار بن گیا۔ آج اس تاریخی چھکے کو لگے پورے 38 سال بیت گئے ہیں مگر اس کی یاد اب بھی شائقین کرکٹ کے دلوں میں بالکل تازہ ہے۔
دنیا میں کئی بڑے عظیم بلے باز آئے، گئے اور انہوں نے کئی یادگار اننگز کھیلیں مگر جو شہرت اور پذیرائی جاوید میاںداد کے ایک چھکے کو ملی وہ شاید ہی کسی چھکے کو ملی ہو۔
80 کی دہائی میں شارجہ ایک مصروف ترین کرکٹ وینیو ہوا کرتا تھا جہاں سال میں 2 دفعہ مختلف ناموں سے ایک روزہ میچز کے ٹورنامنٹس کھیلے جاتے۔ پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ان ایونٹس میں مرکز نگاہ ہوا کرتی تھیں اور متحدہ عرب امارات میں دونوں ممالک کے شہریوں کی ایک خاصی بڑی تعداد کے سبب اسٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر جاتا تھا۔ شارجہ اسٹیڈیم کے مقابلے ایک ورلڈکپ کا سا منظر پیش کرتے تھے۔
یہ 18 اپریل 1986 کی بات ہے۔ وہی شارجہ کا گراؤنڈ تھا اور آسٹریلیشیا کپ کے پہلے ایڈیشن کے فائنل میچ میں 2 روایتی حریف پاکستان اور بھارت آمنے سامنے تھے۔ پاکستان کو آخری گیند پر جیت کے لیے 4 رنز جبکہ بھارت کو ایک وکٹ درکار تھی۔
شائقین کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر تھا۔ پاکستان کی امیدوں کے محور جاوید میاںداد نے کھڑے ہوکر گراؤنڈ کے چاروں اطراف نگاہیں دوڑائیں۔ گراؤنڈ کا کوئی کونا ایسا نہ تھا جس کو بھارت کے کپتان کیپل دیو نے باؤنڈری سے بچانے کے لیے کوور نہ کیا ہو۔ میاںداد کے پاس ایک ہی راستہ تھا کہ گیند کو اتنی زوردار ہٹ لگائیں کہ وہ گراؤنڈ سے باہر جا گرے۔ انہوں نے ایک آخری نگاہ فیلڈ پر ڈالی، زیرِ لب کچھ پڑھا اور پھر نہایت ہی پُراعتماد انداز میں بیٹگ کے لیے تیار ہوگئے۔
بھارت کے نوجوان فاسٹ باؤلر چیتن شرما باؤلنگ کرنے کے لیے رن اپ سے بھاگنا شروع ہوئے۔ تماشائیوں کا شور آسمان کی بلندیوں کو چُھو رہا تھا۔ شارجہ سے لے کر پاکستان تک سب کو بس ایک امید تھی کہ شاید کچھ ہوجائے، شاید پاکستان جیت جائے، بچوں اور بڑوں سبھی کے دل زور زور سے دھڑک رہے تھے۔ کچھ کے ہاتھ باقاعدہ دعاؤں کے لیے اٹھ گئے تھے اور کچھ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ جیسے سب پر امید اور بے یقینی کی ایک ملی جلی کیفیت چھائی ہوئی ہو۔ ہزاروں میل دُور وطن میں شائقین کرکٹ ٹیلی ویژن اسکرینز پر نظریں گاڑے اور نامور انگش کمنٹیٹر افتخار احمد کی کمنٹری کی طرف کان لگائے بیٹھے تھے۔ کرکٹ کے دیوانوں کی ایک بڑی تعداد ریڈیو پاکستان پر اردو کمنٹیٹر حسن جلیل کے دلچسپ تبصرے اور منظر کشی سے میچ کی صورتحال سے لمحہ بہ لمحہ آگاہ ہو رہی تھی۔ ڈریسنگ روم کا ماحول بھی کچھ مختلف نہ تھا۔ کپتان عمران خان سب سے الگ تھلگ خاموشی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور پوری ٹیم اسی امید میں تھی جس میں سارا پاکستان تھا۔
کسی کو یقین نہیں تھا کہ آخری گیند پر چھکا لگ جائے گا اور پاکستان اس وقت کے ورلڈ چیمپیئن بھارت کو فائنل میں مات دے ڈالے گا۔ پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے بھارت کو بیٹنگ کی دعوت دی تھی جس پر بھارت نے 245 رنز بنائے تھے۔ 246 رنز کے تعاقب میں پاکستان کی بیٹنگ ایک بار پھر لڑکھڑا گئی تھی اور پہلے 4 بلے باز 110 رنز پر پویلین واپس لوٹ گئے تھے جس کی وجہ سے ساری ذمہ داری میانداد کے کندھوں پر آپڑی تھی۔
اس صورتحال کو جاوید میانداد نے اپنی سوانح حیات ’کٹنگ ایج: مائی آٹو بائیو گرافی’ میں کچھ یوں بیان کیا کہ ’جب میں 39 رنز کے مجموعی اسکور پر وکٹ پر پہنچا تو امید تھی کہ ہم ہدف باآسانی حاصل کرلیں گے لیکن سامنے لگا تار وکٹیں گرنے لگیں۔ جب عمران خان بھی آؤٹ ہوئے تو میں نے سوچا شاید ہم نہیں جیت سکتے۔ میں نے پھر فیصلہ کرلیا کہ میچ کو آخری اوور تک لے کر جاؤں گا‘۔
میانداد ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح بھارتی باؤلنگ کے خلاف مضبوطی سے کھڑے رہے اور 48ویں اوور تک نہ صرف ایک اینڈ سنبھالے رکھا بلکہ اسکور کو آگے بڑھاتے ہوئے اپنی سنچری بھی مکمل کر ڈالی۔
جب آخری 3 اوورز میں 31 رنز درکار تھے تو انہیں امید ہوئی کہ پاکستان جیت سکتا ہے۔ جب اگلے 2 اوورز میں 20 رنز بن گئے تو انہیں مزید کچھ اطمینان ہوا۔ آخری اوور شروع ہوا تو وہ پہلے ہی ایک دو جارحانہ اسٹروکس لگا کر میچ کا قصہ تمام کرنا چاہتے تھے۔ مگر بدقسمتی سے اس دوران ان کے سامنے وسیم اکرم رن آؤٹ ہوگئے۔ اب میانداد نان اسٹرائیکنگ اینڈ پر تھے اور ان کا ساتھ نبھانے کے لیے وکٹ کیپر بلے باز ذوالقرنین آئے جن کا بیٹنگ کا ریکارڈ کوئی بہت زیادہ اچھا نہیں تھا۔ وہ چیتن شرما کے آخری اوور کی چوتھی گیند پر بولڈ ہوگئے۔
اب 2 گیندیں بچی تھیں اور 5 رنز درکار تھے۔ توصیف احمد آنے والے آخری بلے باز تھے۔ دوسری طرف میانداد جو نان اسٹرائیکنگ اینڈ پر موجود تھے بہت بے تاب دکھائی دے رہے تھے کیونکہ ایک تاریخی جیت اس عظیم بلے باز کے محض ایک اسٹروک کے فاصلے پر تھی۔
توصیف احمد آسٹریلیشیا کپ کے فائنل کی یادیں تازہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب میں میدان میں داخل ہوا تو شور اس قدر بلند تھا کہ میں نروس ہوگیا۔ جب وکٹ پر پہنچا تو جاوید بھائی نے کہا کیا کرو گے؟ میں نے بمشکل ان کی آواز سن کر کہا کچھ بھی ہو میں بھاگ کر آپ کو اسٹرائیک دوں گا۔ ہم دونوں میں طے ہوگیا تھا کہ گیند اگر بیٹ پر نہ بھی آئی اور وکٹ کیپر کے پاس چلی گئی تو پھر بھی ہمیں بھاگنا ہوگا۔ دھڑکتے دل کے ساتھ میں کریز پر تیار ہوگیا۔ جب چیتن شرما کی گیند آئی تو میں نے بیٹ گھما دیا اتفاق ہوا کہ گیند بلے پر آگئی اور مڈ آف پر کھڑے اظہر الدین کی طرف گئی، میں نے بھاگنا شروع کردیا۔ جاوید بھائی چیخ رہے تھے۔ توصیف بھاگو۔ میں دیکھ رہا تھا گیند اظہر الدین کے پاس ہے اور میں ان ہی کے قریب کے اینڈ کی طرف بھاگ رہا تھا۔ اس لمحے مجھے یوں لگا کہ وہ ایک رن نہیں میرا پورا کیریئر ہے۔ اظہر چاہتے تو بھاگ کر وکٹ پر آتے اور مجھے رن آؤٹ کردیتے لیکن انہوں نے تھرو کی اورپھر میں بچ گیا اور وہ تاریخی رن بھی مکمل ہوگیا جو اگر نہ ہوتا تو کچھ نہ ہوتا‘۔
توصیف کہتے ہیں کہ ’میں نے اپنی شاندار باؤلنگ سے پاکستان کو بارہا میچ جتوائے لیکن شارجہ کا وہ ایک رن میری پہچان بن گیا۔ جہاں بھی گیا اسی رن کے بارے میں مجھ سے پوچھا گیا اور آج بھی اسی کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے‘۔
جاوید میانداد اپنی کتاب میں مزید لکھتے ہیں کہ ’میں چیتن شرما کی آخری گیند کے لیے دماغ بنا چکا تھا اور مجھے اندازہ تھا کہ وہ آخری گیند یارکر کریں گے اس لیے میں کریز سے 2 فٹ باہرنکل کر کھڑا ہوگیا تاکہ فل ٹاس بنا سکوں۔ شرما نے میری توقع کے عین مطابق یارکر کرنے کی کوشش کی اور میں نے ایک قدم پیچھے ہٹ کر شاٹ کھیلا اور یہ دیکھے بغیر کہ گیند کہاں گری ہے پویلین کی طرف دوڑ لگا دی کیونکہ مجھے یقین تھا کہ گیند عین بلے کے درمیانی حصے پر لگی ہے اور باؤنڈری سے باہر ہی جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ تماشائیوں کے شور نے بتا دیا کہ ہم میدان مار چکے ہیں‘۔
چھکے سے پورا اسٹیڈیم اچھل پڑا تھا، تماشائی خوشی سے بے قابو ہوکر گراؤنڈ کے اندر داخل ہوگئے تھے۔ صورتحال کو قابو میں کرنے کے لیے پولیس کو لاٹھی چارج کرنا پڑا یہاں تک کہ مغالطے میں میانداد کے ساتھ بھاگتے ہوئے توصیف بھی ایک موقع پر پولیس اہلکاروں کے ڈنڈوں کی زد میں آگئے تھے۔
شارجہ کے اس چھکے نے پوری قوم کو اپنے سحر میں جکڑ لیا تھا۔
اس پوری صورتحال سے انور مقصود بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور سلمی آغا کے ایک گانے کی طرز پر مزاحیہ گیت ’اک چھکے کے جاوید کو 100 لاکھ ملیں گے۔۔۔ توصیف بیچارے کو درہم 8 ملیں گے‘ لکھ ڈالا۔
یہ گیت جسے بشریٰ انصاری نے گایا تھا آج بھی مقبول ہے۔
شارجہ کے چھکے نے جاوید میانداد کو صحیح معنوں میں ہیرو بنا دیا تھا۔ ان پر ہر طرف سے انعامات کی بارش کی گئی۔ ایک لگژری مرسیڈیز کار بھی تحفے میں ملی۔ جس بلے سے انہوں نے چھکا مارا اس کی نیلامی سے ایک بھاری رقم وصول ہوئی۔ اگرچہ انہوں نے یہ بلا شارجہ گراؤنڈ کے بانی عبدالرحمن بخاتر کو تحفے میں دے دیا تھا مگر انہوں نے نیلامی کرکے رقم میانداد کو دے دی تھی۔
اس ایک چھکے نے جہاں ایک طرف میانداد کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تو دوسری طرف چیتن شرما کی ساکھ کو بُری طرح متاثر کیا۔
شرما انٹرویوز میں کہتے رہے کہ شارجہ کے میچ کے بعد انہیں بہت ہی مشکل وقت کا سامنا کرنا پڑا۔
ایک انٹرویو میں انہوں نےکہا کہ ’میں اس چھکے کو بھولنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن لوگ مجھے بھولنے نہیں دیتے۔ لوگ چیزیں نہیں بھولتے، خواہ وہ اچھی ہو یا بُری۔ ایسا بھارت اور پاکستان کے مابین مقابلوں میں ہوتا ہے‘۔
انہوں نے کہا کہ ’لوگ 1987 کے ورلڈ کپ میں ان کی نیوزی لینڈ کے خلاف ہیٹ ٹرک یا انگلینڈ کے خلاف اچھی کارکردگی کو یاد نہیں کرتے لیکن میانداد کا چھکا ایک ایسی چیز ہے جسے وہ کبھی نہیں بھولیں گے۔ لیکن لوگوں کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ میں اس وقت صرف 18 سال کا لڑکا تھا اور میانداد جیسے ایک بڑے بلے باز کا سامنا تھا‘۔
اس چھکے سے قبل بھارت کے خلاف پاکستان کا ریکارڈ کوئی بہت زیادہ اچھا نہیں تھا مگر اس کے بعد پاکستان کا پلڑا بھارت کے خلاف بھاری رہنے لگا۔
1987 میں پاکستان نے بھارت کا دورہ کیا اور 6 میچوں کی ون ڈے سیریز میں 5 ایک سے کامیابی سمیٹی۔ نہ صرف یہ سیریز بلکہ اگلی ایک دہائی کے دوران بھارت کے خلاف کھیلے جانے والے تمام ون ڈے میچوں میں پاکستان کا پلڑا بھاری رہا۔
کرکٹ پر تحقیق کرنے والے محققین کے مطابق پاکستان کی بھارت کے خلاف کامیابی کی دیگر وجوہات کے ساتھ میانداد کا چھکا ایک بڑی وجہ تھی جس نے ایک عرصے تک بھارتی کھلاڑیوں پر نفسیاتی دباؤ ڈالے رکھا۔ میانداد کے 1986 والے چھکے کے بعد سے 2003 تک پاکستان اوربھارت کے مابین کُل 69 ون ڈے میچ کھیلے گئے جن میں سے 44 پاکستان نے جیتے جبکہ بھارت صرف 22 میچ اپنے نام کرسکا تھا۔
میانداد کے چھکے کے بعد پاکستانی ٹیم مجموعی طور پر ایک مضبوط ٹیم کے روپ میں نظر آنے لگی تھی۔ یہاں تک کہ اسے ورلڈ کپ 1987 کے لیے فیورٹ قرار دیا جانے لگا تھا مگر بدقسمتی سے پاکستان سیمی فائنل میں آسٹریلیا کے ہاتھوں 18 رنز سے شکست کھا بیٹھا۔ پاکستان کا بہتری کی طرف سفر جاری رہا اور بالآخر 1992 میں وہ ورلڈ کپ کا فاتح بن گیا۔