تیونس پولیس نے النہضہ پارٹی کے ہیڈکوارٹر پر چھاپہ مار کر اپوزیشن رہنما راشد الغنوشی کو گرفتار کر لیا ہے۔ اس بات کی تصدیق النہضہ پارٹی کے سینیئر رہنمائوں نے خود کی ہے۔
پارٹی حکام نے بتایا کہ پیر کے روز پولیس نے پہلے راشد الغنوشی کے گھر چھاپہ مارا، انہیں گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا گیا۔ اس کے چند گھنٹوں کے بعد پارٹی کے ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بول دیا گیا۔
’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق تیونسی حکام نے صدر قیس سعید پر تنقید کرنے والوں کو بڑی تعداد میں حراست میں لے رکھا ہے۔ سابق قانون دان قیس سعید 2019 میں صدر منتخب ہوئے، انہوں نے 2021 میں حکومت کو برطرف اور پارلیمنٹ کو معطل کر دیا۔ اس کے بعد انہوں نے عدلیہ پر بھی قابو پالیا۔
خبررساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایک سینیئر پولیس افسر کا کہنا ہے کہ راشد الغنوشی کو تحقیقات کے لیے حراست میں لیا گیا ہے اور ان کے گھر قانونی طور پر عدالتی احکامات پر چھاپہ مارا گیا ہے۔
راشد الغنوشی کو اس سے پہلے بھی حکومت کی طرف سے سنگین الزامات کا سامنا ہے اور ان کے خلاف عدالتی تحقیقات ہو رہی ہیں ۔ راشد الغنوشی پر پارٹی فنڈنگ میں خورد برد اور 2011 میں داعش سے رابطوں کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
النہضہ پارٹی کے نائب صدر علی العریض جو کہ سابق وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں، کو بھی اسی نوعیت کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
راشد الغنوشی اور ان کی پارٹی نے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔ 81 سالہ بزرگ رہنما کو حراست میں لینا اور اس طرح تحقیقات کرنے کے خلاف پارٹی نے سخت ردعمل دینے کا عندیہ دیا ہے۔ جبکہ ان کے وکیل نجیب شیبی نے ایسوسی ایٹڈ پریس نیوز ایجنسی کو بتایا کہ راشد الغنوشی کو دارالحکومت کے مشرق میں العونیہ جیل میں رکھا گیا ہے۔
راشد الغنوشی کی پارٹی النہضہ کی جانب سے ان کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کی گرفتاری ملک کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
واضح رہے کہ راشد الغنوشی کو تیونس میں صدر قیس سعید کا سب سے بڑا ناقد سمجھا جاتا ہے۔ جب سے تیونسی پارلیمنٹ کو معطل کیا گیا ہے اس کے بعد سے راشد الغنوشی کی مقبولیت میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔