محمد ولی خان اپر چترال کے دُور افتادہ گاؤں کھوژ کا رہائشی ہے۔ گزشتہ برس ماہ اگست میں آنے والے تباہ کن سیلاب میں محمد ولی کا گھر اور تمام جمع پونجی سیلاب کی نذر ہوگئی تھی۔ علاقے میں سردیوں کا موسم گزرنے کے بعد، اب انہوں نے گھر اور صحن سے ملبہ ہٹانا شروع کردیا ہے۔
سیلاب کے بعد حکومتی اعلانات اور وعدوں سے وہ پُرامید تھے کہ جلد دوبارہ چھت ملے گی لیکن سیلاب کے 6 ماہ بعد بھی وہ بے گھر ہیں۔ انہیں سخت سردیاں بھی ٹینٹ ہی میں گزارنا پڑیں۔
محمد ولی نے وی نیوز کو بتایا کہ ’چند سال پہلے ہی، میں نے بڑی مشکل سے گھر تعمیر کیا تھا، جو سیلاب میں بہہ گیا، اور اب میں بے گھر ہوں‘۔
اس کے چہرے سے بے چینی اور پریشانی عیاں تھی۔ پیشے کے لحاظ سے ولی ٹیکسی ڈرائیور ہے لیکن اب وہ ڈرائیونگ چھوڑ کر گھر کے لیے خود کام کرتا ہے۔ اس نے بتایا کہ ’میں کھدائی کرکے جگہ ہموار کر رہا ہوں اور ملبے سے پتھر اور لکڑی بھی نکال رہا ہوں تاکہ استعمال کرسکوں‘۔
’میری 2 بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے، بڑی بیٹی 6 سال کی ہے، وہ کام میں میری مدد کرتی ہے، کبھی بیوی بھی میرے ساتھ کام کرتی ہے۔ ان کے علاوہ اور کوئی نہیں، مجبوری ہے اور کوئی چارہ بھی نہیں ہے‘۔ محمد ولی نے مزید بتایا کہ ’6 ماہ سے زائد عرصے تک حکومتی امداد کا انتظار کیا‘۔
محمد ولی کا کہنا ہے کہ ’سیلاب کے بعد حکومتی نمائندے آئے اور انہوں نے بڑے بڑے وعدے کیے، کئی بار سروے بھی کیے۔ ٹی وی پر بھی وزیرِاعظم اور وزیرِاعلیٰ کو سیلاب متاثرین کے لیے بڑے وعدے کرتے دیکھا۔ اس وقت کے وزیرِاعلیٰ محمود خان اپر چترال بھی آئے اور انہوں نے خصوصی پیکیج کا اعلان بھی کیا۔ اس وقت لگ رہا تھا کہ متاثرین مالا مال ہوجائیں گے، لیکن افسوس آج بھی ہم دانے دانے کو محتاج ہیں‘۔
محمد ولی نے بتایا کہ ’اپر چترال میں 4 ماہ شدید سردی ہوتی ہے اور شدید سردی میں وہ ٹینٹ میں رہائش پذیر تھے جبکہ تصویریں سوشل میڈیا پر آنے کے بعد، ایک فلاحی ادارے نے انہیں 2 کمرے کرائے پر لے کردیے جبکہ حکومت کی جانب سے ابھی تک کچھ نہیں ملا ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ حکومتی سروے میں ان کا نام بھی آگیا اور ڈپٹی کمشنر آفس اور پی ڈی پی اے سے تصدیق ہوئی اور نام ادائیگی کے لیے بینک کو بھی بھیجے گئے لیکن اس کے بعد کچھ پتہ نہیں چل رہا۔
’حکومتی رقم بروقت مل جاتی تو گھر کی تعمیر میں کام آتی۔ حکومت کی بے حسی سے تنگ آکر میں نے خود تعمیر شروع کردی ہے۔ مجھے کام نہیں آتا لیکن مستری کے لیے پیسے نہیں، اس لیے خود ہی کر رہا ہوں‘۔
محمد ولی نے بتایا کہ گھر کی تعمیر کے لیے جگہ تیار کرلی ہے لیکن اب میٹریل کے لیے پیسے نہ ہونے سے کام روکنا پڑا ہے۔
اس طرح کی پریشانیوں کے شکار محمد ولی اکیلے نہیں ہیں، خیبر پختونخوا کے مختلف اضلاع میں ہزاروں سیلاب متاثرین نقصانات کے ازالے کے لیے حکومت کی جانب سے ادائیگی نہ ہونے کے سبب شدید مشکلات کا شکار ہیں۔ اکثر متاثرین اب بھی ٹینٹوں میں رہنے پر مجبور ہیں اور گھروں کی دوبارہ تعمیر کے لیے حکومتی اعلان کردہ امداد کے منتظر ہیں۔
کیا حکومت سیلاب متاثرین کو بھول گئی ہے؟
گزشتہ برس اگست میں آنے والے سیلاب نے پاکستان میں تباہی مچا دی تھی، اس کے نتیجے میں 33 کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوئے تھے جبکہ 1100 افراد سیلاب میں بہہ کر موت کے گھاٹ اتر گئے تھے۔
سیلاب متاثرین کی بحالی کے لیے حکومت نے بڑے بلند و بانگ دعوے کیے، بین الاقوامی ڈونر کانفرنسز ہوئیں، اقوامِ متحدہ کی جانب سے بھی خصوصی اپیل کی گئی۔ ان تمام تر کوششوں کے باوجود متاثرین بدستور امداد سے محروم ہیں۔ متاثرین کا مؤقف ہے کہ حکومت سیلاب متاثرین کو مکمل طور پر بھول گئی ہے جبکہ بے گھر ہونے سے ان کی عید بھی پھیکی ہوگئی ہے۔
سیلاب سے متاثرہ ارشاد احمد نے وی نیوز کو بتایا کہ ’ہماری کیا عید ہے۔ عید کے دن بھی افسردہ ہیں، بچوں کے لیے نئے کپڑے نہیں خرید سکے‘۔ پھر انہوں نے سیلاب والے دن کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ ’شام کے وقت اچانک سیلاب آنے سے وہ گھر سے کچھ بھی نہیں نکال سکے اور گھر کا نام و نشان بھی نہیں رہا‘۔
ارشاد احمد کا کہنا تھا کہ عید جیسی خوشی پر بھی سیلاب متاثرین کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ ہم کس حال میں ہیں اور زندگی کتنی مشکل ہوگئی ہے، یہ صرف اللہ جانتا ہے یا پھر ہم جانتے ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گھروں کے علاوہ انفراسٹرکچر کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا تھا۔ سڑکیں، نکاسی آب، پینے کے پانی کی سپلائی لائنیں بھی تباہ ہوئی تھیں اور وہ اب تک بحال نہیں ہوسکی ہیں۔
ایک اور سیلاب متاثرہ فرد حمیداللہ نے بتایا کہ ہم نے اپنی مدد آپ کے تحت پینے کے پانی کی فراہمی بحال کردی جبکہ سڑکیں اور نالے ابھی تک صاف نہیں کیے گئے ہیں۔
حمید اللہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’سیلاب کے بعد برساتی نالے کو صاف کرنے کا اعلان ہوا تھا اور اس مقصد کے لیے ایک کروڑ کی منظوری بھی ہوئی تھی لیکن اب ضلعی انتظامیہ کہہ رہی ہے کہ فنڈز نہیں ہیں۔ برساتی نالے میں سیلاب کا ملبہ اور بڑے بڑے پتھر ہونے سے پانی گاؤں میں داخل ہو رہا ہے جس سے مزید نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اب تنگ آکر اہلِ علاقہ نے چندہ جمع کرکے ملبہ ہٹانا شروع کردیا ہے کیونکہ یہاں حکومت ہے ہی نہیں جو متاثرین کی مدد کرے‘۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مجموعی طور پر تمام متاثرہ علاقوں کا یہی حال ہے۔
حکومتی امداد!
خیبر پختونخوا میں اس وقت تحریک انصاف حکومت کی کابینہ نے سیلاب متاثرین کے نقصانات کے ازالے کے لیے حکومتی معاوضے میں اضافہ کیا تھا۔ مکمل تباہ گھر کے لیے 2 لاکھ سے بڑھا کر 4 لاکھ روپے اور جزوی نقصان کی صورت میں ایک لاکھ 60 ہزار روپے رکھے گئے تھے۔ ساتھ ہی جاں بحق افراد کے لیے 8 لاکھ اور زخمیوں کا معاوضہ 2 لاکھ روپے کردیا گیا۔
پی ڈی ایم اے کے مطابق سیلاب سے جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کو ادائیگیاں بروقت کردی گئی ہیں جبکہ دیگر متاثرین میں شفاف تقسیم کے لیے ڈیجیٹل سروے کے بعد بینک آف خیبر سے ادائیگی کا سلسلہ بھی شروع کیا جائے گا۔
اس تمام صورتحال سے باخبر سرکاری حکام بتاتے ہیں کہ حکومت نے ادائیگی کا عمل بہت جلد شروع کیا تھا، متاثرین کو بینک کے ذریعے ادائیگیاں کی گئیں لیکن ایک ماہ بعد ہی یہ سلسلہ روک دیا گیا، جس کی بڑی وجہ فنڈز کا نہ ہونا تھا۔
متاثرین کو ادائیگی
پی ڈی ایم اے خیبر پختونخوا کی طرف سے ملنے والے اعداد وشمار کے مطابق پورے صوبے میں سیلاب سے متاثرہ 63 ہزار 57 گھروں کا سروے کیا گیا جن میں سے 55 ہزار 621 کی تصدیق ہوئی۔ متاثرین کو ادائیگی کے لیے اب تک صرف 29 ہزار 334 اکاوئنٹ کھولے گئے ہیں اور ادائیگی صرف 19 ہزار 973 متاثرین کو ہوئی ہے، جو صرف 35 فیصد بنتی ہے جبکہ 75 فیصد متاثرین تاحال امداد کے منتظر ہیں۔
متاثرین کو ادائیگی کیوں نہیں ہو رہی؟
سرکاری اور خیبر بینک ذرائع نے بتایا ہے کہ سیلاب متاثرین کو ادائیگی گزشتہ چند ماہ سے بند ہے۔ اس حوالے سے حکومتی سطح پر کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے ہیں۔ متاثرین بار بار بینک سے رابطہ کرتے ہیں لیکن بینک کے پاس ادائیگی کے لیے فنڈز نہیں ہے۔
نگران وزیرِ اطلاعات خیبر پختونخوا فیروز جمال شاہ کاکا خیل نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ سیلاب متاثرین کو ادائیگیاں نہیں ہورہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں، جب پیسے نہیں ہوں گے تو ادائیگیاں کہاں سے کریں گے۔ صوبہ کنگال ہوگیا ہے، عید پر ملازمین کو تنخواہ بھی نہیں دے سکے۔ اگر فنڈز مل گئے تو ادائیگی کریں گے۔
سیلاب سے نقصانات
واضح رہے کہ گزشتہ برس اگست میں مون سون کے موسم میں طوفانی بارشوں سے سیلاب نے پورے ملک میں تباہی مچا دی تھی۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال اگست میں آنے والے سیلاب سے پاکستان میں 3 کروڑ 30 لوگ متاثر ہوئے جبکہ وفاقی حکومت کے مطابق سیلاب سے معیشت کو 10 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا تھا جبکہ 10 لاکھ گھر بھی تباہ ہوئے تھے۔
متاثرین سراپا احتجاج
اپر چترال کے گاؤں بریپ کے سیلاب متاثرین گزشتہ کئی دنوں سے گاؤں میں دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت متاثرین کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہی ہے۔
مقدار علی خان نے بتایا کہ ’متاثرین کی آباد کاری کے لیے وعدے کیے گئے لیکن پورے نہیں ہوئے۔ گرمی شروع ہوگئی ہے، نالوں کی صفائی نہیں ہوئی، اب مزید سیلاب کا خطرہ ہے۔ جو علاقے محفوظ تھے اب ان کا بھی سیلاب کی زد میں آنے کا خدشہ ہے‘۔
انہوں نے بتایا کہ ’ابھی تک متاثرین کو معاوضے کی مکمل ادائیگی نہیں ہوئی ہے اور وہ بے یار و مددگار، کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان دُور افتادہ پہاڑی علاقوں میں متاثرین کا پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ وہ پُرامن احتجاج کر رہے ہیں جبکہ پولیس نے ان کے خلاف ایف آئی آر درج کردی ہے۔ کیسی بدقسمتی ہے کہ عید جیسے خوشی کے دن بھی وہ احتجاج پر مجبور ہیں‘۔