ججز ٹرانسفر کے خلاف اسلام آباد بار کونسل کی کال کیا آئین کی بالادستی کے لیے ہے؟

اتوار 2 فروری 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جمعہ 31 جنوری کو صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں 3 ججز ٹرانسفر کی منظوری دی جس کے خلاف کل 3 فروری اسلام آباد بار کونسل نے احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ماضی میں کب کب ججز کا دوسرے صوبوں سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں تبادلہ ہوا؟

اسلام آباد بار کونسل اس سلسلے میں وکلا کنونشن کا انعقاد کرنے جا رہی ہے اور اپنے اعلامیے میں انہوں نے اس پر سخت ردعمل بھی ظاہر کیا۔

15 جنوری کو اسلام آباد ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر ریاست علی آزاد نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز اسلام آباد ہی سے ہونے چاہییں اور کسی بھی دوسرے صوبے سے اگر ججز لانے کی کوشش کی گئی تو اسلام آباد کے وکلا بھرپور احتجاج کریں گے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ کوئی آئینی مسئلہ ہے یا یہ محض وکلا کی خواہشات پر مبنی ایک احتجاج ہے۔

میاں رؤف عطا

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر میاں رؤف عطا نے وی نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 200 کے مطابق یہ صدر پاکستان کا اختیار ہے کہ وہ ججوں کو ایک عدالت سے دوسری عدالت ٹرانسفر کر سکتے ہیں اور ہم بدنیتی کا سوال تو تب اٹھاتے اگر پروسیجر پورا نہ کیا گیا ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہاں آئین میں درج پورے طریقہ کار کے مطابق عمل درآمد کیا گیا ہے۔ صدر اور متعلقہ ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان سے باقاعدہ مشاورت کے بعد ٹرانسفر کا عمل مکمل کیا گیا، جن ہائیکورٹس سے جج صاحبان اسلام آباد ہائیکورٹ لائے جا رہے ہیں ان کے چیف جسٹس صاحبان نے رضامندی کا اظہار کیا ہے، اور جو جج صاحبان آ رہے ہیں انہوں نے بھی اپنی مرضی ظاہر کی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:ایک اور بحران؟ دوسری ہائیکورٹ سے جج لاکر چیف جسٹس نہ بنایا جائے، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا یحییٰ آفریدی کو خط

ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹرانسفرز آرٹیکل 200 کی روح کے عین مطابق ہے۔کسی جج کو نکالا نہیں جا رہا۔ باقی اسلام آباد ہائیکورٹ میں آئندہ جو چیف جسٹس بنیں گے وہ آئین کے آرٹیکل 175 اے کے تحت بنیں گے، جس میں 3 سینیئر ترین ججز کی کارکردگی ان کی قانونی سوج بوجھ دیکھی جائے گی۔ اسلام آباد بار کونسل کو جو تحفظات ہیں ان پر احتجاج اس کا جمہوری حق ہے۔

میاں رؤف عطا  کے مطابق کل جو اسلام آباد بار کونسل نے احتجاج کی کال دی ہے یہ اس کا فیصلہ ہے اور بار کونسل اپنے فیصلوں میں خود مختار ہے۔  فی الوقت تمام پروسیجر کے مطابق ٹرانسفرز کی گئی ہیں اور اگر اس میں کوئی بدنیتی شامل ہے تو اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا۔

اس سوال کے جواب میں کہ آیا باقی ہائیکورٹس میں جج صاحبان کی ٹرانسفر ممکن ہے؟ میاں رؤوف عطا نے کہا کہ بالکل ممکن ہے لیکن اسلام آباد چونکہ وفاقی دارالحکومت ہے تو یہاں کی ہائیکورٹ میں باقی صوبوں سے جج صاحبان تعینات کے جاتے ہیں۔

امجد شاہ ایڈووکیٹ

پاکستان بار کونسل کے رکن سید امجد شاہ ایڈووکیٹ نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وکلا کو صرف اس وقت احتجاج کرنا چاہیے جب کوئی اقدام خلاف آئین و قانون ہو، آئین اور قانون کے مطابق ججز کی ٹرانسفر ہو سکتی ہے اس پر وکلا کو احتجاج نہیں کرنا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں:اسلام آبادہائیکورٹ کے ججز کا خط: اہم نکات کیا ہیں؟

انہوں نے کہا کہ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ اسلام آباد میں صرف اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ہی ججز بنیں، جبکہ ایسا ہو نہیں سکتا، کیونکہ اسلام آباد میں مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لوگ آباد ہیں۔ اگر وہ کسی مخصوص شخصیت کو چیف جسٹس دیکھنا چاہتے ہیں تو فرض کریں کہ اگر ٹرانسفرز نہ بھی ہوتیں تب بھی جوڈیشل کمیشن نے 3 ججز کے پینل سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح سے احتجاج تو لاہور بار کو کرنا چاہیے تھا جہاں تیسرے نمبر پر سینیئر جسٹس عالیہ نیلم کو چیف جسٹس بنایا گیا۔ جس چیز کی آئین اجازت دیتا ہے اس کے لیے کم از کم وکلا کا احتجاج نہیں بنتا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

پاکستان اور جرمنی کا مختلف شعبوں میں تعاون مزید مضبوط بنانے پر اتفاق

’خرابی رافیل طیاروں میں نہیں بلکہ انہیں اڑانے والے بھارتی پائلٹس میں تھی‘، فرانسیسی کمانڈر

’ایلی للّی‘ وزن گھٹانے والی ادویات کی کامیابی سے پہلی ٹریلین ڈالر کمپنی

ضمنی انتخابات: ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی پر رانا ثنا اللہ کو 50 ہزار روپے جرمانہ

کوپ 30: موسمیاتی مذاکرات میں رکاوٹ، اہم فیصلے مؤخر

ویڈیو

میڈیا انڈسٹری اور اکیڈیمیا میں رابطہ اور صحافت کا مستقبل

سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے حساس ڈیٹا کیوں چوری کیا؟ 28ویں آئینی ترمیم، کتنے نئے صوبے بننے جارہے ہیں؟

عدلیہ کرپٹ ترین ادارہ، آئی ایم ایف کی حکومت کے خلاف چارج شیٹ، رپورٹ 3 ماہ تک کیوں چھپائی گئی؟

کالم / تجزیہ

ثانیہ زہرہ کیس اور سماج سے سوال

آزادی رائے کو بھونکنے دو

فتنہ الخوارج، تاریخی پس منظر اور آج کی مماثلت