رمضان المبارک کے اختتام سے ہی عید کی تیاریاں شروع ہوجاتی ہیں۔ ہر کسی کا خوشی منانے کا ایک الگ ہی انداز ہوتا ہے۔ صرف مختلف ممالک ہی میں عید کے مختلف رنگ نہیں ہوتے بلکہ ہر ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے بھی مختلف انداز اور مختلف روایتوں کے ساتھ عید کا جشن مناتے ہیں، اچھا لباس پہنتے اور مل جل کر خوشیوں کے لمحات ساتھ گزارتے ہیں۔
پاکستان کے تقریباً ہر حصے میں عید کے الگ ہی رنگ نظر آتے ہیں۔ ملک کے چاروں صوبوں کا رہن سہن، رسم و رواج اور کھانے پینے کا کلچر بھی ایک دوسرے سے قدرے مختلف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر علاقے میں تہوار منانے کا انداز بھی الگ ہے اور روایات بھی مختلف ہیں جو نسل در نسل سے چلی آ رہی ہیں۔ انہی روایات کو جاننے کے لیے وی نیوز نے مختلف علاقوں کے لوگوں سے ان کے علاقوں کی دلچسپ اور منفرد روایات جاننے کی کوشش کی۔
گاؤں کے ہر گھر میں عید پہنچانے کی روایت
خیبر پختونخوا کے معروف علاقے دیر سے تعلق رکھنے والی 24 سالہ زینب نے عید کے حوالے سے اپنے علاقے کی ایک منفرد روایت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’ان کے گاؤں میں بھی عید ویسے ہی منائی جاتی ہے جیسے باقی شہروں میں مگر ان کے ہاں عید پر ایک منفرد روایت یہ ہے کہ نمازِ عید کے بعد مسجد میں موجود تمام حضرات اس وقت تک مسجد کے احاطے سے باہر نہیں نکلتے جب تک ہر نمازی سے عید نہ مل لیں‘۔
زینب بتاتی ہیں کہ ’نماز کے بعد تمام نمازی مل کر گاؤں کے ہر گھر میں جاتے ہیں اور ہر گھر میں جاکر بچوں کو عیدی دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے حتیٰ کہ گاؤں کے آخری گھر میں بھی جاکر عیدی دینے کا کام پورا ہوجائے‘۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نمازِ عید کے بعد ہر گھر میں بچوں کو شدت سے انتظار ہوتا ہے کہ ان کے گھر کی باری کب آئے گی۔ ہرعیدالفطر کے موقع پر ایسا ہی ہوتا ہے۔ انہیں سال بھر اسی لیے اس میٹھی عید کا شدت سے انتظار رہتا ہے‘۔
تمام مرد حضرات ہر گھر سے دیسی گھی اورابلے ہوئے چاول کھاتے ہیں
بنوں سے تعلق رکھنے والے محمد عثمان نے وی نیوز کو بتایا کہ ’عید پر ان کے علاقے میں ایک خاص حلوہ بنتا ہے، اس کے علاوہ ان کے شہر میں عید کے حوالے سے مشہور روایت یہ ہے کہ عید کے روز ان کے گاؤں کے تمام مرد اکٹھے ہوکر گاؤں کے ہر گھر میں جاتے ہیں اور عید ملنے کے بعد ہر گھر سے دیسی گھی اور ابلے ہوئے چاول کھاتے ہیں‘۔ عثمان کہتے ہیں کہ اس کے پیچھے کوئی بھی کہانی نہیں ہے۔ بس یہ ایک پرانی روایت ہے۔
عید پر انڈے لڑائے جاتے ہیں
گلگت کے علاقے یاسین سے تعلق رکھنے والے ظفرعلی خان نے اپنے ہاں عید کی مشہور روایت کا تذکرہ کرتے ہوئے بتایا کہ ہمارے علاقے میں عید کی نماز کے بعد انڈے لڑائے جاتے ہیں اور عید پر یہ کھیل کھیلنے کا رواج برسوں پرانا ہے۔
اس میں 2 حریف ابلا ہوا انڈا لیتے ہیں، انڈے کا ابلا ہوا ہونا لازمی ہے۔ اس کے بعد ایک مقابلہ جسے ’سٹی‘ کہتے ہیں، میں ایک کریٹ کے اندر سے اپنی مرضی کے 2 انڈے بغیر چیک کیے اٹھاتے ہیں اور پھر انڈے لڑانے کا مقابلہ شروع ہوتا ہے۔ جس حریف کا انڈا پہلے ٹوٹ جاتا ہے، اسے اپنا ابلا ہوا انڈا جیتنے والے فرد کو دینا ہوتا ہے‘۔
تقریبا 20 انڈوں کی دو قطاریں بنائی جاتی ہیں۔ جس حریف کی قطار میں سے زیادہ انڈے ٹوٹتے ہیں، وہ ہار جاتا ہے۔ ہارنے والے کو اپنے باقی ابلے ہوئے انڈے جیتنے والے کو دینا ہوتے ہیں۔
تمام لوگ مسجد میں گھر سے بنے ہوئے پکوان لے کر آتے ہیں
محمد عاطف کا تعلق مردان سے ہے۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ ’ہمارا ہجرہ سسٹم ہوتا ہے۔ تمام مرد جب عید کی نماز کے لیے مسجد آتے ہیں تو اپنے گھروں سے کچھ نہ کچھ پکوان کر لے آتے ہیں۔ عید کی نماز کے بعد سب سے عید ملتے ہیں، پھر سب وہیں مسجد میں بیٹھ کر، گھر سے لائے ہوئے کھانے ایک دوسرے کے ساتھ مل بانٹ کر کھاتے ہیں‘۔ انہوں نے بتایا کہ یہ روایت کافی پرانی ہے اور ہر سال عیدالفطر کے موقع پر اس روایت کو برقرار رکھنے کے لیے سب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
سب لوگ گھروں سے ڈھولکیاں لے کر تربیلا ڈیم سے نکلتی آبشاروں پر جاتے ہیں
25 سالہ شانزہ خان کا تعلق ضلع ہری پور سے ہے۔ وہ ایم ایس کی طالب علم ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہر عید کے موقع پر صوابی اور تربیلا سے تعلق رکھنے والے مرد حضرات ٹولیوں کی صورت تربیلا ڈیم سے نکلنے والی آبشاروں پر جاتے ہیں۔ تمام مرد ٹولیوں کی صورت میں اپنے گھروں سے کھانا بنوا کر وہاں لے جاتے ہیں۔ اس میں مزید دلچسپ پہلو یہ ہے کہ وہ اپنے ساتھ ڈھولکیاں لے کر جاتے ہیں، وہاں کھانے کے ساتھ روایتی انداز میں رقص کرتے ہیں‘۔ وہ کہتی ہیں کہ تربیلا کے مقام پر یہ سلسلہ عید کے بعد تقریباً ایک ہفتے تک جاری رہتا ہے۔
3 دن تک دسترخوان اٹھایا نہیں جاتا
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے غالب کہتے ہیں کہ کوئٹہ میں بہت سی روایات ہیں جو برسوں سے چلتی آرہی ہیں۔ مگر ان روایات میں سے ایک روایت یہ ہے کہ ان کے شہر میں عید کے دن دسترخوان لگتا ہے اور وہ 3 دن تک بچھا رہتا ہے۔ اس دسترخوان میں شیر خرما لازمی ہوتا ہے، باقی نمکین پکوان سمیت ڈرائی فروٹ بھی اس دسترخوان کی ضروری آئٹم ہوتی ہے اور ڈرائی فروٹ میں بادام، پستہ، اخروٹ، کاجو اور انجیر کا ہونا لازمی ہے۔ مہمان آتے ہیں اور وہیں کھاتے ہیں۔ اگر مہمان چائے کے وقت آئیں تو شیر خرما اور ڈرائی فروٹس کے ساتھ چائے کے تمام لوازمات ہوتے ہیں، کھانے کے وقت آئیں تو بکرے کے گوشت کی مختلف ڈشز کا خصوصی اہتمام ہوتا ہے۔
تھر میں عید کے موقع پر روایتی لباس پہنا جاتا ہے
صبا بجیر کا تعلق سندھ حیدرآباد سے ہے۔ ان کے آباؤ اجداد کا تعلق تھر سے ہے۔ انہوں نے وی نیوز کو بتایا کہ تھر میں سب سے منفرد بات یہ ہے کہ تہوار کوئی بھی ہو، روایتی لباس ہی پہنا جاتا ہے۔ ’ہمارا اپنا روایتی لباس ہوتا ہے جسے ہم شادی بیاہ اور عید کے مواقع پر زیب تن کرتے ہیں۔ اس لباس کے ساتھ سفید رنگ کے چوڑے پہنے جاتے ہیں۔ جو پورے بازوؤں پر پہنے ہوتے ہیں۔ اس روایتی جوڑے کو ’بھرت‘ کہتے ہیں۔ یعنی فُل کڑھائی والا چولا، جس کے ساتھ شرارا یا سوسی شلوار پہنی جاتی ہے‘۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس کے ساتھ ہاتھ کا بنا ہوا کھسہ اور چاندی کا موٹا زیور بھی پہنا جاتا ہے جبکہ ناک میں نتھ پہننا لازم ہے۔
دیسی سویاں، دیسی گھی اور دیسی شکر
حیدرآباد سندھ کے سکندر لغاری گاؤں سے تعلق رکھنے والی سمیرا لغاری نے وی نیوز کو بتایا کہ ان کے گاؤں میں آج بھی عید کے موقع پر خود سویاں تیار کی جاتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہ دیسی سویاں، آٹے، میدے یا پھر سوجی سے بنائی جاتی ہیں۔ اس کے لیے پہلے پانی کے ساتھ آٹے کو سخت گوندھا جاتا ہے اور پھر اس کے پیڑے بنائے جاتے ہیں۔ جس کے بعد ہم ان پیڑوں کو مشین میں ڈالتے ہیں۔ اس مشین کو چارپائی سے باندھا جاتا ہے۔
انہوں نے بتایا ہے جب آٹے کے پیڑے کو مشین میں ڈال کر مشین کا ہینڈل گھمایا جاتا ہے تو وہ آٹا سویوں کی شکل اختیار کرکے مشین کے ایک حصے کے سوراخوں سے باہر نکلنا شروع ہوتا ہے۔ اس کے بعد ان سویوں کو خشک کرنے کے لیے دھوپ میں کسی چادر پر رکھ دیا جاتا ہے اور پھر عید کے روز ان سویوں کو دیسی گھی اور شکر کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ یہ روایت ہمارے ہاں ہمیشہ سے چلی آرہی ہے اور اب تک ایسا ہی ہے، اور اس سارے کام کے لیے تقریباً 4 سے 5 لوگ درکار ہوتے ہیں۔