مسلمانوں کے لیے عید بہت بڑی خوشی کا دن ہوتا ہے اور ایک مذہبی فریضہ بھی مگر پاکستان میں عید عموماً ایک دن بہت کم منائی گئی ہے۔ بالخصوص ماضی قریب میں بھی خیبرپختونخوا میں عید باقی ملک کی نسبت ایک دن پہلے ہی منائی جاتی رہی ہے۔
اکثرایسے بھی ہوا کہ خیبرپختونخوا میں سرکاری سطح پر عید کا اعلان نہیں ہوا ہوتا مگراکثرعلاقوں میں پھر بھی عید منائی جاتی ہے۔ ویسے آج کا موضوع وزیرستان میں عید کی خوشیاں کیسے منائی جاتی ہیں؟ کے حوالے سے ہے لیکن پہلے ملک کے دیگرعلاقوں سے پہلے عید کیوں منائی جاتی ہے؟ کے حوالے سے بھی کچھ باتیں ہو جائیں۔
ہم سب جانتے ہیں کہ پشتون مذہبی فرائض کی انجام دہی میں بڑے حساس واقع ہوئے ہیں جن کے منفی اورمثبت دونوں پہلوؤں پر باتیں بھی ہوتی ہیں مگر ایک بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ عید کے چاند کا اعلان ویسے ہی نہیں کیا جاتا۔ بنوں اور شمالی وزیرستان میں بعض ایسے حصے ہیں جہاں عید کا چاند دیکھنے کے لیے مخصوص مقامات پر سینکڑوں لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور ان مقامات پر خصوصی جگہیں بنائی گئی ہیں جہاں درجنوں افراد چاند دیکھ کر شہادت دیتے ہیں اس کے بعد دیگر علاقوں تک اطلاعات پہنچائی جاتی ہیں کہ چاند نظر آگیا ہے یا نہیں۔
شمالی وزیرستان کے علاقے حیدر خیل میں جس مقام سے چاند نظر آتا ہے لوگ سالوں سے اسی مقام پر جمع ہوتے آئے ہیں۔ اس حوالے سے کئی تنقیدی آوازیں بھی سننے کو ملتی ہیں جو سائنسی نظریے سے چاند دیکھنے کے ممکنات کو مسترد کرتے ہیں مگر میرا ماننا ہے کہ کئی چیزیں ایسی ہیں جس کو سائنس مسترد کرتا ہے لیکن حقیقت میں ہوتی ہیں۔ مثال اس طرح پیش کروں گا کہ حیدر خیل یا ان علاقوں کے لوگ جو چاند کی شہادت دیتے ہیں وہ مذہبی فرائض کی جس طرح پابندی کرتے ہیں وہ جان بوجھ کر ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے اور نہ ہی ان علاقوں کے لوگوں کے کوئی سیاسی عزائم ہوتے ہیں۔
یقیناً یہ سوال بھی اٹھایا جا سکتا ہے کہ وہ کیوں غلط بیانی نہیں کریں گے؟ تو میری طرف سے جواب یہ ہوگا کہ اگر آپ وزیرستان کے کلچر بالخصوص مذہبی رسومات کی ادائیگیوں کے خود شاہد ہوں تب آپ کو یہ بات سمجھ آسکتی ہے۔
وزیرستان میں عید سے پہلے ایک نظر یہاں کے بڑے قبیلوں پر ڈالتے ہیں۔
وزیرستان شمالی اور جنوبی وزیرستان کے دو اضلاع پر مشتمل رہا ہے لیکن حال میں جنوبی وزیرستان کو بھی دو اضلاع میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے دو نئے اضلاع میں محسود قبیلے پر مشتمل ضلع کو اپر وزیرستان کا نام دیا گیا جبکہ وانا کے احمدزئی اور ان کے ساتھ دوتانی سلیمان خیل قبیلوں پر مشتمل علاقے کو لوئر وزیرستان کا نام دیا گیا ہے۔
اپر وزیرستان جہاں محسود اور برکی قبیلہ رہائش پذیر ہے اس وقت تک کاغذوں کی حد تک ضلع ہے جبکہ انتظامی معاملات دو ضلع ٹانک سے چلائے جاتے ہیں۔ اپر وزیرستان ہیڈکوارٹر کے لیے حکومتی سطح پرایک انتہائی نا مناسب جگہ سپینکی رغزی کا انتخاب کیا گیا ہے جس پر محسود قبیلے کے لوگ انتہائی نا خوش ہیں لیکن اس حوالے سے تفصیل سے کسی اور دن بات کریں گے۔
اپر اور لوئر وزیرستان کی سرحد پر بیٹنی قبیلہ آباد ہے ۔ انگریز دور میں قبیلوں کی تعداد کا ایک طریقہ کار وضع کیا گیا تھا یا پھر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت بھی اسی وقت کئے گئے حساب کے مطابق پشتون ولی کلچر میں ایک دوسرے کے ساتھ ڈیل کیا جاتا ہے۔
مثال کے طور (دولس زره بيټني) بارہ ہزار بیٹنی اسی طرح محسود قبیلے کو اٹھارہ ہزار (ماسید) شمار کیا گیا ہے۔ شمالی،اپر اور لوئروزیرستان میں تین بڑے قبیلے آباد ہیں، وزیر شمالی اور لوئر دونوں کو (شپیته زره وزير) ساٹھ ہزار شمار کیا گیا ہے جبکہ شمالی وزیرستان میں داوڑ قبیلے کی تعداد بارہ ہزارشمار کی گئی۔ اسی طرح اپر وزیرستان انگریز دور میں محسود قبیلے کو اٹھارہ ہزار شمار کیا گیا ہے جبکہ کانیگرم میں رہائش پذیر برکی (اورمڑ) قبیلے کی تعداد بھی ہزاروں میں ہے۔
اسی طرح لوئر وزیرستان میں احمدزی وزیر بڑا قبیلہ شمار کیا گیا ہے لیکن ان کے ساتھ سلیمان خیل اور دوتانی قبیلے کی موجودگی بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔
مندرجہ بالا حساب انگریز یا شاید ان سے قبل کا ہو البتہ اس وقت اگر تینوں اضلاع میں موجود لوگوں کی درست گنتی کی جائے تو یہاں کی آبادی بیس پچیس لاکھ نفوس سے زائد ہو سکتی ہے۔اب آتے ہیں عید کی خوشیاں منانے کی طرف تو جیسے ابتداء میں ذکر کیا کہ یہاں مذہبی رسومات انتہائی جوش و جذبے سے منائے جاتے ہیں۔ نائن الیون کے بعد سے یہاں کلچر کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا اور پرانا کلچر کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے اس لیے آج ہم اس عید کی بات کررہے ہیں جو آپریشنز کے بعد منائی جاتی ہیں اور اس میں پرانے کلچر کی بنیادی چیزیں شامل ہیں۔
وزیرستان کے ہرعلاقے کو دیکھنے کے بعد میں یہ دعویٰ کر سکتا ہوں کہ پاکستان میں موجود تمام سیاحتی مقامات میں سے وزیرستان سب سے زیادہ خوبصورت ہے حالیہ چند برسوں میں ملک بھر سے لوگ سیاحت کے لیے آتے ہیں اور ان کے خیالات سوشل میڈیا پر اس بات کا ثبوت ہے کہ یہاں کس قدر خوبصورت علاقے موجود ہیں۔
وزیرستان میں تین دن تک عید کی خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ عید کے نماز کے بعد لوگ ایک دوسرے کو عید مبارک کہتے ہیں اور پھر (چھوٹے بڑے) ٹولیوں کی شکل میں گاؤں کے ہر گھر میں جاتے ہیں جہاں آنے والے مہمانوں کی تواضع مختلف ڈشز سے کی جاتی ہے ۔جن میں نمایاں زردا، پلاؤ اور لڑمون شامل ہیں۔ گاؤں کا ہر شخص آنے والے مہمانوں کے لیے کچھ نہ کچھ رکھے ہوئے ہوتا ہے تو ایسے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں زیادہ یا پھر بہتر بندوبست کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہیں۔
مگر زندگی میں کبھی یہ نہیں دیکھا کہ گھروں میں جانے والے افراد نے کسی ایسے گھر نہ جانے کی کوشش کی ہو جہاں ان کو اس سطح کے لذیذ کھانے نہ ملیں جو کسی صاحبِ استطاعت شخص کے ہاں کھانے کو مل سکتے ہوں۔ اور یہ بات انتہائی معیوب سمجھی جاتی ہے کہ کوئی نوجوان کسی کے گھر میں رکھے کھانے کے حوالے سے کوئی منفی اشارہ بھی کریں یا میزبان کو محسوس کرائیں۔
پہلے دن اس طرح گزارنے کے بعد دوسرےدن سے وزیرستان کے مختلف علاقوں کے لوگ کلچرل ڈھول کا اہتمام کرتے ہیں جہاں یہاں کا خوبصورت ثقافتی اتن (رقص)کیا جاتا ہے جس میں ہر عمر کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ حالیہ تین چار سالوں سے عید کے دنوں میں وزیرستان ملحقہ اضلاع ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، بنوں وغیرہ کے سیاحوں سے کچھا کھچ بھر جاتا ہے۔
ویسے تو پورا وزیرستان بہت خوبصورت ہے مگر عید کے دنوں میں جہاں سیاحوں کی بھیڑ ہوتی ہے ان میں شمالی وزیرستان کا رزمک، شوال جو کہ شمالی وزیرستان اور اپر وزیرستان دونوں اضلاع کے حصے میں آتا ہے۔ بالخصوص اپر وزیرستان قریباً ستر فیصد پہاڑی علاقے پر مشتمل ہے اور یہاں بہت خوبصورت علاقے ہیں جیسے وادی بدر، پش زیارت، لدھا، کانیگرم،مکین ، مانتوئی۔ اس طرح لوئر وزیرستان میں بھی بہت خوبصورت علاقے موجود ہیں جیسے کہ مساڑدینا شکئی وغیرہ۔
میرا ذاتی تعلق چونکہ اپر وزیرستان کے علاقے مکین سے ہے اور مکین بازار اپر وزیرستان کا سب سے بڑا اور خوبصورت بازار ہے۔اس لحاظ سے ہر عید جو یہاں اپنی آنکھوں سے دیکھی وہ یہ کہ مکین بازار کے ساتھ پریاٹائی الگڈ جہاں بڑے مقدار میں پانی کا بہاؤ ہوتا ہے جن کو ہم لگاڈ یا الگڈ کہتے ہیں، وہاں پر دو سے تین کلومیٹر کے ایریا میں غیرمقامی سیاح ٹینٹ لگا لیتے ہیں اور خصوصاً رات کے وقت یہاں بہت خوبصورت نظارے ہوتے ہیں۔
یہاں آنے والے پشتون قبیلوں کے مختلف شاخوں جیسے بنوچی ، مروت ،اور بیٹنی قبیلے کے لوگ اپنے اپنے ثقافتی میوزک کا بندوبست یا سامان بھی ساتھ لے آتے ہیں۔شمالی وزیرستان اور لوئر وزیرستان کے لوگ بھی قریباً اپر وزیرستان کے علاقوں میں ٹینٹ لگا لیتے ہیں اسی طرح اپر وزیرستان کے لوگ شمالی وزیرستان اور لوئر وزیرستان کے پر فضا مقامات دیکھنے چلے جاتے ہیں۔
عید کے دنوں میں باہر سے آنے والے سیاحوں کو مقامی لوگ بڑے دل کے ساتھ اس انداز میں خوش آمدید کہتےہیں کہ آپ کو کسی کے حجرے میں ایک بندے کی گنجائش دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ اس کی ایک وجہ یہاں ریسٹورنٹس کا مناسب انتظام نہ ہونا بھی ہے۔
میں سالوں سے کہتا آرہا ہوں کہ جس دن ریاست وزیرستان میں دل سے ترقی چاہے گی اسی دن وہ یہاں سب سے زیادہ توجہ سیاحت اور امن پر دے گی۔ اگر وزیرستان میں سیاحت کو فروغ ملا تو روزگار کے وافر مواقع ملیں گے اور عید کے علاوہ بھی علاقہ سیاحوں سے بھرا رہے گا لیکن فی الوقت ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا۔