ہمارا گھر سیٹلائٹ ٹاؤن، راولپنڈی میں واقع تھا جہاں سارے بہن بھائی اکٹھے رہتے تھے۔ گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے کچھ بگڑا ہوا بچہ تھا اس لیے لاڈ پیار نے مجھے کچھ سست بھی بنا دیا۔
میں سکول یونیفارم، جوتے، جرابیں کہیں بھی اتارتا میرا بڑا بھائی ابرار ڈھونڈ کر دیتا۔ صبح مجھے تیار ہونے میں بھی مدد دیتا ایسے جیسے وہ مجھ سے بہت بڑا ہو حالانکہ وہ صرف ایک سال بڑا تھا۔ بہرحال اس طرح کی محبت سب سے ملنے کے ساتھ ساتھ میں ماں کا لاڈلا بھی رہا۔
ایک دفعہ مجھے یاد ہے کہ گھر پہنچا تو چہرے پر تھکن دیکھ کر ماں جی نے پیار سے پاس بلا لیا۔میرا شیری لالہ تھکا ہوا لگ رہا ہے، زیادہ کام کیا ہے میرے بچے نے، انہوں نے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے پوچھا۔ پھر بولیں تیل کتنے دن سے نہیں لگایا؟ اتنی خشکی ہو رہی ہے، یہ ٹھیک نہیں ہوتی۔ یہ کہہ کر انہوں نے میرا سر اپنی گود میں رکھا اور تیل کی شیشی لے کر مالش شروع کر دی۔ مالش ایسی تھی کہ میں کچھ ہی دیر میں سو گیا۔ آنکھ کیا لگی میں خواب میں چلا گیا۔
خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں گھر میں اکیلا ہوں، سب کام مجھے کرنے پڑ رہے ہیں۔ میں بہت غصہ کرتا ہوں۔ یہ گھر بھی کوئی اور تھا۔وہ نہیں تھا جہاں میں پلا بڑھا۔ پھر بھی مجھے خواب میں بتایا جا تا ہے کہ یہ تمہارا گھر ہے جہاں تم اکیلے رہتے ہو۔ میں نے کہا میں اکیلا کیسے ہو سکتا ہوں؟ میرے امی ابو، بہن بھائی کہاں ہیں؟ وہ سب اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں۔ تمہارے والدین بھی تمہیں چھوڑ گئے ہیں۔
میں رونا شروع کر دیتا ہوں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟۔ میری امی تو کہتی تھیں کہ میں سب بچوں کی شادیاں کر کے انہیں الگ گھر میں بھیج دوں گی مگر اپنے شیری لالے کے ساتھ اسی گھر میں رہوں گی۔ وہ کیسے مجھے الگ کر سکتی ہیں؟
آواز آئی، تم سمجھے نہیں، انہوں نے تمہیں الگ نہیں کیا، قسمت نے انہیں تم سے الگ کر دیا ہے۔ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہیں۔میں مزید اونچی آواز میں رونے لگتا ہوں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ وہ کیسے چھوڑ کر جا سکتی ہیں جب میری سانس چل رہی ہے؟ آواز دوبارہ آئی۔ یہی دستور دنیا ہے۔ وہ اب نہیں رہیں، انہیں بھول جاؤ، اب تمہاری اپنی زندگی ہے۔
اچھا تو میرے ابا کہاں ہیں، جنہوں نے مجھے قدموں پر کھڑا ہونا سکھایا۔ جو میری انگلی پکڑ کے مجھے چلایا کرتے تھے۔ میرا ہاتھ گیٹ میں آیا تو وہ مجھے گود میں اٹھا کر ڈیڑھ کلومیٹر تک بلا تکان بھاگتے ہوئے ہسپتال لے گئے ، میری پریشانیاں چہرے سے پڑھ لیتے تھے۔ وہ ہمیں پریشان چھوڑ کر تو نہیں جائیں گے۔
اب کی بار آواز غصے سے بھرپور تھی، تمہیں سمجھ نہیں آتا؟ تمہاری والدہ کے بعد والد بھی اگلے جہان کو جا چکےہیں۔ اس فانی دنیا کی ہر شے فانی ہے۔ آج یا کل سب کو یہاں سے جانا ہے، اصل ٹھکانہ یہاں نہیں وہاں ہے۔
میں سہم گیااور میرا چہرہ پسینے سے تر ہو گیا۔ اسی دوران آنکھ کھلی تو ماں جی سامنے تھیں۔ خوف کے عالم میں ان سے لپٹ گیا۔ خیر،اس کے بعد میں نے وہیں سے گردن گھما کر دیکھا تو لاؤنج میں موجود میرے والد بھی اپنے کاغذات لے کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اخبارات بکھرے پڑے تھے اور وہ اپنی غزلیں ترتیب دے رہے تھے۔
اب میں مطمئن تھا مگر ماں جی نے سوال کیا۔ کیا ہوا،میرا شیری اتنا سہما ہوا کیوں ہے۔ کوئی ڈراؤنا خواب دیکھا تھا؟ اس پر میں نے سر ہلا دیا۔ کیا دیکھا؟ بس ایسا خواب دیکھا جو میں دہرانا نہیں چاہتا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا۔ کوئی بات نہیں مجھے بتاؤ، انہوں نے جواب دیا۔
میں نے کہا امی جی، آپ مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گی ؟ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کبھی بھی نہیں۔ میں تو ہمیشہ اپنے شیری لالے کے ساتھ رہوں گی۔ بس اب میں مطمئن ہوں کیونکہ میں نے خواب دیکھا کہ میں اکیلا رہ گیا ہوں۔ آپ اور ابو جی اس دنیا میں نہیں رہے اور سب بہن بھائی بھی اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے ۔ یہ گھر بھی نہیں رہا، میں کسی نئے گھر میں ہوں، اکیلا ہوں، آپ کو تو پتا ہے مجھے اکیلے بہت ڈر لگتا ہے۔مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائیں گی ناں؟
اب کی بار انہوں نے بھی مجھے حیران کر دیا۔ کہنے لگیں جانا تو سب کو ہے بیٹا، بس یہ یاد رکھنا کہ میں تمہارے ساتھ ہی ہوں گی، جب کوئی مشکل ہو،پریشانی ہو، یاد کرنا کہ میں ایسے موقع پر تمہیں کیا کہا کرتی تھی۔ میری دعائیں ہمیشہ تمہیں اپنے حصار میں رکھیں گی۔
میں نے فوراً ماں جی کا ہاتھ پکڑ لیااور کہا کہ نہیں میں آپ کو جانے نہیں دوں گا۔ انہوں نے آہستگی سے اپنا ہاتھ چھڑایا اورمیرے ماتھے پر پیار کیا اور بولیں جانا تو ہو گا۔ ابو جی کو دیکھا اور کہا چلیں خان صاحب؟۔ ابو جی نے کہا تم چلو۔ مجھے تھوڑا کام ہے۔ میں آتا ہوں۔ پھر اکٹھے چائے پی لیں گے۔ اس کے بعد ماں جی اچانک غائب ہو گئیں۔
میں نے زور سے چیخ ماری۔ آنکھ کھل گئی۔ مجھے معلوم ہوا کہ میں صرف ایک خواب نہیں دیکھ رہا تھا۔ بلکہ میں نے خواب میں بھی خواب دیکھا۔ میری والدہ تو بہت پہلے ہم سب کو روتا چھوڑ گئی تھیں۔ وہ مجھے پریشان اور روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھیں اس لیے مجھے تین روز کے بعد ہسپتال سے خود بھیجا کہ اب میں ٹھیک ہوں تم دفتر جاؤ۔ شاید اس لیے تاکہ وہ خاموشی سے اس دکھ دینے والی دنیا سے چلی جائیں۔ شام کے وقت جب میں ہولی فیملی ہسپتال کے کمرے میں پہنچا تووہ اگلے جہاں کوچ کر چکی تھیں۔ میں خود کو کوستا رہا کہ میں دفتر گیا ہی کیوں ؟ کاش میں یہاں ہوتا تو انہیں بچانے کے لیے کچھ کرتا۔ شاید جب آخری لمحات میں وہاں کوئی ڈاکٹر نہیں تھا اور میری بہن مدد کو پکار رہی تھی، میں ہوتا تو شاید کوئی ڈاکٹر ڈھونڈ لاتا۔
لیکن اب ان گنت پچھتاووں کے بعد 24 برس کا سفر گزر چکا ہے۔ امی کے بعد ابو جی 14 سال تک ہمارے ساتھ رہے تو ہم کافی سنبھلے رہے۔ ان کی وفات کے بعد ایک بار پھر سنبھلنے میں بہت عرصہ ۔اب تو بس یہی دعا کرتے ہیں کہ یا اللہ میرے والدین کے ساتھ اتنا ہی پیار کرنا جتنا پیار انہوں نے ہمیں دیا۔