گزشتہ 60 برسوں میں اپنے خون کے عطیات دے کر لاکھوں لوگوں کو زندگیاں بخشنے والے آسٹریلوی مخیر شہری جیمز ہیریسن 88 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔
یہ بھی پڑھیں: 6 دہائیوں تک خون کا عطیہ کرکے خاتون نے نیا عالمی ریکارڈ بنا لیا
جیمز اپنے پیچھے 24 لاکھ سے زائد لوگوں کو چھوڑ گئے جو ان کے مقروض ہیں کیوں کہ انہوں نے گزشتہ 60 سال برسوں کے دوران اپنا خون دے کر انہیں موت سے بچایا تھا۔
جیمز کو ’دی مین ود دی گولڈن آرم‘ کا لقب دیا گیا ہے۔ یہ لقب انہیں اس احسان کے حوالے سے ملا جو انہوں نے دنیا بھر کے لاکھوں بچوں پر کیا ہے ان کی جانیں بچائی ہیں اور انھیں موت سے بچایا ہے۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق جیمز نے 6 دہائیوں میں کیے گئے 1100 سے زائد عطیات کے ذریعے نایاب خون کا پلازما دے کر 2.4 ملین سے زائد بچوں کی زندگیاں بچانے میں مدد کی۔
جیمز کے خون میں ایک نایاب اور قیمتی اینٹی باڈی تھی جسے ’اینٹی ڈی‘ کہا جاتا ہے۔ یہ مادہ حاملہ ماؤں کو دی جانے والی ادویات بنانے کے لیے استعمال ہوتا ہے جن کے خون سے ان کے پیدا ہونے والے بچوں پر بیماریوں کے حملے کا خطرہ ہوتا ہے۔
مزید پڑھیے: امریکا: خون عطیہ کرنے والوں کی تعداد 20 سال کی کم ترین سطح پر کیوں پہنچ گئی؟
آسٹریلوی ریڈ کراس کے مطابق ان کے عطیات نے 2.4 ملین سے زیادہ آسٹریلوی بچوں کی زندگیاں بچانے میں مدد کی ہے اور ممکنہ طور پر دنیا بھر میں یہ بہت سے زیادہ تعداد ہے۔
جیمز جان بچانے والی منتقلی حاصل کرنے کے بعد سنہ 1954 میں خون کا عطیہ دہندہ بن گئے تھے۔ سنہ 2018 میں 81 سال کی عمر تک بغیر ملاقات کے ہر 2 ہفتے بعد وہ اپنا خون عطیہ کرتے۔
جیمز پورے براعظم آسٹریلیا میں 200 سے کم لوگوں میں سے ایک ہیں جو مناسب طریقے سے عطیہ کرنے کے لیے کافی اینٹی ڈی پیدا کرنے کے قابل تھے۔ ان کے خون میں شامل اینٹی باڈیز ریسس بیماری کے لیے علاج تیار کرنے میں اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔
ریسس نامی بیماری اس وقت ہوتی ہے جب ایک ماں کا مدافعتی نظام اس کے بچے کے خون کو اجنبی کے طور پر شناخت کرتا ہے اور اینٹی باڈیز پیدا کرتا ہے جو رحم میں اس پر حملہ کرتا ہے۔ اس سے دماغ کو شدید نقصان دل کی ناکامی یا موت کا باعث بن سکتا ہے۔
سنہ 1960ء کی دہائی کے وسط میں ’اینٹی ڈی‘ کی نشوونما سے پہلے ریسس کی بیماری سے تشخیص شدہ 2 میں سے ایک بچے کی موت ہو جاتی تھی۔ چونکہ اینٹی باڈیز ابھی تک مصنوعی طور پر تیار نہیں کی جا سکتی اس لیے جیمز جیسے عطیہ دہندگان فی الحال حالت کو قابو میں رکھنے کا واحد طریقہ ہیں۔
مزید پڑھیں: لیبارٹری میں تیار خون کی انسانوں پر آزمائش
چونکہ ان کا کام ایک اخلاقی ذمہ داری تھی اس لیے جیمز کو آسٹریلیا میں مقامی اور قومی ہیرو کے طور پر پہچانا گیا۔
سنہ 1999 میں جیمز کو آرڈر آف آسٹریلیا ایوارڈ سے نوازا گیا۔ سنہ سنہ 2005 سے سنہ 2022 تک وہ سب سے زیادہ خون کا پلازما عطیہ کرنے کا عالمی ریکارڈ ہولڈر بن گئے تھے۔
جیمز نے دوسروں اور بچوں کی مدد کے لیے اپنا بازو 1100 سے زیادہ مرتبہ بڑھایا اور اس کے بدلے میں کبھی بھی کسی چیز کی توقع نہیں کی۔