چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے کہا ہے کہ اگر ایک منتخب نمائندہ کہہ رہا ہے کہ وہ مستعفی نہیں ہوا تو پھر عوامی نمائندے کو عزت دینی چاہیے۔ عدالت نے شکور شاد کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
پی ٹی آئی کے ممبر قومی اسمبلی شکور شاد کے استعفیٰ سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کی۔ چیف جسٹس نے شکور شاد کے وکیل سے استفسار کیا کہ ’استعفیٰ یا نو استعفیٰ ؟‘۔ اس پر وکیل نے کہا’نو استعفیٰ‘
شکور شاد کے وکیل نے مزید کہا کہ میرے مؤکل نے پارٹی قیادت کے کہنے پر احتجاجاً استعفیٰ پارٹی کو دیا۔ عدالت نے پوچھا کہ کیا آپ نے استعفٰی سے متعلق پارٹی قیادت کو آگاہ کیا تھا؟ وکیل نے بتایا کہ ہمیں پارٹی سے نکالا گیا ہے۔ ہم نے اسپیکر اور الیکشن کمیشن کے دونوں نوٹیفکیشن کو چیلنج کیا ہے۔
شکورشاد کے وکیل نے مزید کہا کہ میرے مؤکل نے 11 اپریل کو استعفیٰ پارٹی چیئرمین کو دیا، اسپیکر قومی اسمبلی کو نہیں دیا،15 اپریل کو پی ٹی آئی نے اسپیکر کو استعفے دیے۔16 اپریل 2022 کو موجودہ اسپیکر آئے تو انہوں نے اسپیکر رولنگ کو ریورس کر دیا تھا۔
وکیل نے مزید کہا کہ ’اگر کسی نے استعفیٰ دینا ہے تو خود اسپیکر قومی اسمبلی کے پاس جا کر استعفیٰ دیں گے۔ اگر وزیراعظم مستعفیٰ ہو تو یہ سوال نہیں پوچھا جائے گا کہ استعفی کیوں دیا؟ اگر ممبر قومی اسمبلی استعفیٰ دیں تو اسپیکر رولز کے تحت بتانا ہوگا۔
درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ ’15 اپریل کی اسپیکر رولنگ کے تحت الیکشن کمیشن نے ڈی نوٹی فائی نہیں کیا۔ موجودہ اسپیکر قومی اسمبلی نے استعفوں کی تصدیق کے لیے سمن کیا جس میں نہیں گیا۔ تاہم سابق اسپیکر رولنگ کے بعد میں سٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاسوں میں شریک ہوتا رہا ہوں۔
عدالت نے استفسار کیا کہ ’آپ کو ممبر قومی اسمبلی کے حثیت سے کب سے الاؤنسز نہیں مل رہے؟‘ درخواست گزار کے وکیل نے بتایا کہ اپریل 2022 سے مجھے ممبر قومی اسمبلی کے حثیت سے الاؤنس نہیں مل رہے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ ’اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے شکور شاد کو نوٹس جاری کیا گیا مگر وہ پیش نہیں ہوئے۔ استعفوں کی تصدیق کے لیے ہی اسپیکر قومی اسمبلی نے درخواست گزار کو نوٹس کیا تھا۔
عدالت نے پوچھا ’کیا پیش نہ ہونا ڈی سیٹ ہونے کے لیے کافی ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ غیر موجودگی کا مطلب nothing ہے۔ چیف جسٹس نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے کہا کہ’ آنے دیں اگر یہ واپس آنا چاہتے ہیں؟‘ اگر درخواست گزار خود کہہ رہا ہے کہ میں نے استعفیٰ نہیں دیا تو پھر اور کیا چاہیے؟
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’سپریم کورٹ کے جج یا وزیراعظم اگر مستعفی ہو تو کیا صدر ان سے وجوہات پوچھ سکتا ہے، استعفیٰ کے وجوہات صرف عوامی نمائندوں کی حد تک ہیں، سابق ڈپٹی اسپیکر نے جو کیا وہ بھی غلط تھا اور اب جو ہو رہا ہے وہ بھی غلط ہے،
چیف جسٹس کا کہنا تھا ’درخواست گزار کہہ رہا ہے کہ میں نے استعفیٰ دیا نہیں، پارٹی پریشر میں دستخط کردیے۔ وکیل نے لقمہ دیا ’اسپیکر نے بھی کہا ہے کہ میں درخواست گزار کی reasoning سے مطمئن نہیں ہوں‘۔
چیف جسٹس نے کہا ’چلیں درخواست خارج کرتے ہیں مگر پھر ضمنی انتخاب میں عوام کا پیسہ لگے گا، اگر ایک منتخب نمائندہ کہہ رہا ہے کہ وہ مستعفی نہیں ہوا تو پھر عوامی نمائندے کو عزت دینی چاہیے۔ عدالت نے شکور شاد کی درخواست پر دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔