مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو پورے محلے میں صرف ایک گھر میں ایئر کنڈیشن یعنی اے سی ہوتا تھا۔ اس وقت ڈی سی اینورٹر وغیرہ کا رواج ہی نہیں تھا، صرف پیسے والے گھروں میں ایک سادہ سا اے سی یا پھر وِنڈو اے سی ہوتا تھا جس کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ ’روح تک ٹھنڈی کردیتے تھے۔‘
اس وقت کی گرمیاں بہت عام سی ہوتی تھیں۔ تب گرمیوں کا مطلب ہوتا تھا جون، جولائی اور اگست کے مہینے میں موسم گرم رہے گا۔ ہمارے لیے گرمیوں کی چھٹیوں کا مطلب سارا دن کھیلنا، ٹیوشن والی باجی کے گھر سکول کا کام کرنا اور پھر سکول کا کام ختم کر کے امی ابو کے ساتھ اپنے گاؤں جانا ہوتا تھا۔
اس وقت دن کو لُو چلتی تھی لیکن وہ گرمی اتنی تکلیف دہ نہیں ہوتی تھی۔ میں نے کبھی نہیں سنا تھا کہ گرمیوں میں کسی کو ہیٹ سٹروک ہوا ہو، اگر ہوتا بھی ہوگا تو اتنا عام نہیں تھا کہ وہ خبروں کی زینت بن سکے یا پھر اس کے لیے باقاعدہ کوئی وارننگ جاری نہیں ہوتی تھی۔
چھتوں پر سونے کا رواج عام تھا۔ دن بھر کام کرنے کے بعد لوگ چھتوں پر اپنی چارپائیاں اور بستر وغیرہ لے جاتے تھے اور پھر سٹینڈ والے پنکھے لگا کر اسی کی ہوا میں سوتے رہتے تھے۔ نہ بجلی جانے کی فکر ہوتی تھی نہ رات کو گرمی لگتی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب دن گرم اور راتیں سہانی ہوتی تھیں۔
ہم گرمی کے موسم میں سارا دن کرکٹ اور فٹبال کھیلتے تھے۔ جب رات ہوتی تھی تو گلی محلے میں چھپن چھپائی، پکڑن پکڑائی اور کھو کھو جیسے کھیل کھیلے جاتے تھے۔ اس سب کے باوجود ہمیں اتنی گرمی نہیں لگتی تھی جتنی اب لگتی ہے۔
وقت بدل گیا ہے۔ دنیا کی آبادی خوف ناک حد تک بڑھ گئی ہے، درخت بے رحم طریقوں سے کاٹے جا رہے ہیں۔ بڑے شہر کنکریٹ کا جنگل بن گئے ہیں۔ بڑے شہروں میں آنکھیں ترستی ہیں کہ انہیں کوئی درخت یا سبزہ نظر آئے۔ اب موسم گرما کا آغاز اپریل سے شروع ہو جاتا ہے۔ جون جولائی کے موسم میں ایسی خوفناک گرمی پڑتی ہے کہ دل تنگ پڑتا ہے
بات رُوم کولر سے آگے نکل گئی ہے، جہاں پہلے محلے کے صرف ایک گھر میں اے سی ہوتا تھا اب تقریبا ہر گھر میں اے سی ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ اب گرمی برداشت نہیں ہوتی۔ بچے، جوان، بوڑھے سب اے سی پر منحصر کرتے ہیں۔ اے سی کے بغیر گزارہ نہیں رہا۔ گرمیوں کے موسم میں بچے باہر کھیلتے نظر نہیں آتے۔ گلی محلوں میں سائیکلیں چلانے کا ٹرینڈ ہی ہیٹ سٹروک والی گرمی کی وجہ سے تقریبا ختم ہوگیا ہے۔ اس سب کی وجہ ہے کہ دنیا میں آبادی بڑھنے کی وجہ سے ماحولیات میں تبدیلی آگئی ہے۔ پہاڑوں پر پڑنے والی برف پگھل رہی ہے جس کی وجہ سے موسم گرم سے گرم ہوتے جا رہے ہیں۔ اب یورپ اور شمالی امریکہ میں بھی گرمی کی لہر وسطی پنجاب اور سندھ کی یادیں تازہ کرتی ہے۔
گلوبل وارمنگ انسانیت کے لیے بڑھتا ہوا ایک عذاب ہے جس کی زد میں پوری دنیا آ چکی ہے۔ جو ممالک پہلے سے ہی گرمی کا شکار رہتے ہیں ان کے لیے یہ عذاب دو گنا ہے۔ جہاں گرمیاں ہوتی ہی نہیں تھیں وہاں بھی اس نے گرمی پہنچا دی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ابھی یہ حال ہے تو 2050 تک کیا حال ہوگا۔ تب شاید پاکستان بھی خلیجی ممالک کی طرح ہوجائے جہاں اے سی پنکھوں کی طرح چلیں گے۔ دوپہر کو باہر نکلنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکے گا۔ گھر میں اے سی، گاڑی میں اے سی، شاپنگ مال میں اے سی، دوکان پر اے سی، سکول میں اے سی اور دفترمیں بھی اے سی ہوگا۔
ابھی بھی وقت ہے کہ اس بڑھتے ہوئے عفریت کو روکا جائے کہ اس سے پہلے کہ سردی کا موسم صرف یادوں میں ہی رہ جائے اور ہمارے بچے ہم سے ہمارے بچپن کے قصے سنیں کہ گرمیوں میں ہم گھروں سے باہر بھی نکلتے تھے، کھیلتے بھی تھے اور ہمارا گزارہ صرف پنکھوں میں ہی ہو جاتا تھا۔