پاکستان میں مارکیٹ شیئر کے لحاظ سے ’دو پہیوں‘ کی مارکیٹ کی سب سے بڑی کمپنی اٹلس ہونڈا نے اس سال چوتھی مرتبہ اپنے مختلف مگر مقبول موٹرسائیکل ماڈلز کی قیمتوں میں اضافہ کردیا ہے۔
قیمتوں میں اس حالیہ اضافہ کا فیصلہ اٹلس ہونڈا کی جانب سے اس وقت سامنے آیا ہے جب ملک میں افراطِ زر کی شرح میں مسلسل اضافہ کے باعث مینوفیکچررز اور صارفین کے لیے یکساں لاگت بڑھ رہی ہے۔
اٹلس ہونڈا کمپنی کی جانب سے متعلقہ ڈیلرز کو بھیجے گئے اس حالیہ نوٹیفکیشن کے مطابق، بائیکس کی قیمتوں میں 5 سے 15 ہزار روپے تک اضافہ کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ نئی قیمتیں یکم مئی سے لاگو ہوں گی۔
کمپنی اعلامیہ کے مطابق مڈل کلاس شہریوں کی ہر دلعزیز موٹر سائیکل سی ڈی 70 کی نئی قیمت 5 ہزار روپے اضافہ کے بعد 1 لاکھ 54 ہزار 9 سو روپے مقرر کی گئی ہے۔ اسی طرح سی ڈی 70 ڈریم کی نئی قیمت 165,900 روپے کر دی گئی ہے۔
کراچی سے گلگت تک اپنی روڈ گرپ کے باعث پسند کیا جانے والا مقبول ترین موٹرسائیکل ماڈل سی جی 125 ایس کی قیمت میں 10 ہزار روپے اضافہ کے بعد اب 2 لاکھ 75 ہزار 9 سو روپے میں دستیاب ہوگا۔
125 سی سی انجن رکھنے والی اس موٹر سائیکل کے ایک دوسرے ماڈل سی بی 125 ایف کی نئی قیمت 15 ہزار روپے اضافہ کے بعد 3 لاکھ 80 ہزار 9 سو روپے کر دی گئی ہے۔
سی بی 150 ایف کی قیمتوں میں بھی 15 ہزار روپے کا اضافہ کیا گیا ہے جس کے بعد سلور موٹر سائیکل کی نئی قیمت 4 لاکھ 62 ہزار 9 سو روپے ہوگئی ہے۔
گزشتہ ماہ اٹلس ہونڈا نے اپنی موٹرسائیکلوں کی قیمتوں میں 7 سے 25 ہزار روپے تک اضافہ کیا تھا جب کہ رواں برس جنوری میں کمپنی نے ان قیمتوں میں 7 ہزار 4 سو سے 30 ہزار روپے کا اضافہ کیا تھا۔
ایسوسی ایشن آف پاکستان موٹر سائیکل اسمبلرز کے مرتب کردہ اعداد و شمار کے مطابق، کمپنی نے دسمبر 2017 سے شروع ہونے والے پچھلے پانچ سالوں میں اپنے ماڈلز کی قیمتوں میں زیادہ سے زیادہ 3 لاکھ روپے سے زائد اضافہ کیا ہے۔
موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں اضافہ اس وقت ہوا ہے جب پاکستان میں افراط زر بلند سطح پر ہے۔ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کمزور کرنسی کی وجہ سے اشیا اور خدمات کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے، جس نے مینوفیکچررز پر قیمتوں میں اضافہ کے لیے دباؤ کا شکار کیا ہے۔
صنعتی ماہرین کا خیال ہے کہ قیمتوں میں اضافے کا رجحان مستقبل قریب میں بھی جاری رہنے کا امکان ہے کیونکہ ملک بھر میں مہنگائی اور دیگر معاشی عوامل کے اثرات بدستور محسوس کیے جا رہے ہیں۔
حکومت نے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے لیے شرح سود میں اضافہ اور سبسڈی میں کمی سمیت کئی اقدامات کیے ہیں، لیکن ان کے اثرات ابھی پوری طرح محسوس نہیں ہوئے ہیں۔
اس دوران، صارفین خوراک اور ایندھن جیسی ضروری اشیاء سمیت زندگی گزارنے کے لیے درکار بڑھتے ہوئے اخراجات کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں۔