شہروں کی پہچان کے کئی حوالے ہوتے ہیں لیکن میں ذاتی طور پر انہیں شخصیات کے حوالے سے شناخت کرتا ہوں، شہر تمدنی اعتبار سے انہی شخصیات کی وجہ سے پرمایہ ہوتے ہیں اور ان میں بعض ایسی ہستیاں بھی ہوتی ہیں جن کے جہان رنگ و بو سے چلے جانے کے بعد بھی فضا ان کی خوشبو سے معطر رہتی ہے:
’ہر سو ترے وجود کی خوشبو تھی خیمہ زن‘
معروف ادیب محمد خالد اختر نے اپنے سفرنامے ’کیا ہم ابھی قونیہ میں ہیں؟‘ میں لکھا تھا:
’ہمارے دل دھڑک رہے تھے، ہم قونیہ جلال الدین رومی کی خاطر آئے تھے کیونکہ قونیہ جلال الدین رومی ہی کا شہر ہے۔ اور بڑے آدمیوں کے بغیر کوئی بھی شہر ہے ہی کیا؟ بلندو بالا عمارتیں، عمدہ وِلے (villas) سوداگروں کی کوٹھیاں، کارخانے، موٹروں کی ریل پیل۔ یہ سب ایک شہر کو نہیں بناتے۔ داتا صاحب، حضرت میاں میر، مادھو لال حسین اور اقبال اور ان آرٹسٹوں، لکھنے والوں، شاعروں اور گویّوں کے بغیر جو یہاں بسے اور اسے رونق بخشی، لاہور لاہور نہیں، یہ محض اینٹوں اور پتھروں کا ایک بے روح جنگل ہے جس میں لوگ سونے کی چکی میں پستے ہوئے جیتے اور مرتے ہیں۔‘
محمد خالد اختر کی اس بات سے اختلاف نہیں لیکن میں کہنا چاہتا ہوں کہ بڑے آدمیوں کے پہلو بہ پہلو کچھ اور انسان بھی ہوتے ہیں جو شہر کی تعمیر میں حصہ ڈالتے ہیں، یہ شہر کی تاریخ کے متن میں جگہ تو نہیں پاتے اور حاشیے پر رہتے ہیں لیکن ان نرالی ہستیوں کے باعث شہر کی زندگی میں خوبصورتی ضرور پیدا ہوتی ہے جس میں ان کی کسی شوق سے حد درجہ وابستگی کو دخل ہوتا ہے جس سے یہ عمر بھر کا پیمان وفا باندھ لیتے ہیں، آج ایسے ہی ایک باکمال شخص علاؤالدین مظہر سے آپ کو متعارف کروانا ہے۔
میرے لیے ممتاز ادیب انتظار حسین کی تحریریں مظہر صاحب سے تعارف کا ذریعہ بنی تھیں، ان کے بارے میں مزید معلومات کی چیٹک مجھے ان لوگوں تک لے گئی جنہوں نے ان کی آنکھیں دیکھ رکھی تھیں، ان باتوں کا حوالہ میرے ایک مضمون میں آچکا ہے لیکن بیان میں تشنگی کی وجہ سے دل میں یہ کسک ضرور رہی کہ زبان غیر سے ان کے شوق کی شرح تو ہوگئی لیکن اس کے بارے میں ان کا اپنا بیان بھی میسر آجاتا تو لطف اور بھی بڑھ جاتا۔ دل میں یہ تمنا شاید کسی مبارک ساعت میں پیدا ہوئی تھی اس لیے جلد پوری ہوگئی۔
ایک دن پرانی کتابوں کے بازار میں پرانے اخبارات و رسائل کو پھرولتے ہوئے معروف صحافی اور فن انٹرویو کے ماہر منیر احمد منیر کی ادارت میں شائع ہونے والے رسالے ’آتش فشاں‘ کا 45 سال پرانا پرچہ میرے ہاتھ لگا جس میں علاؤالدین مظہر کا پروفائل دیکھ کر اس قدر مسرت ہوئی کہ بھاؤ تاؤ کرنے کی بجائے دکاندار کو منہ مانگی رقم ادا کرکے لے آیا۔ اس پروفائل کو پڑھ کر مظہر صاحب کی شخصیت کا جو نقش انتظار حسین کے کالموں نے ذہن میں جمایا تھا وہ مزید گہرا ہوگیا۔
اس ساڑھے چار دہائی پہلے کے ماخذ کی دریافت کے بعد مظہر صاحب کے بارے میں دستیاب دیگر معلومات کے سہارے اب آپ کو عظیم گلوکار کے ایل سہگل کے عاشقِ صادق علاؤالدین مظہر کے جنونِ شوق کی کتھا سناتے ہیں۔
رونامہ ’مشرق‘ میں انتظار حسین کا کالم ’لاہور نامہ‘ شہر کی 25 سال کی ادبی و تہذیبی زندگی کی زندہ تاریخ ہے، انتظار صاحب کے علاؤالدین مظہر کے بارے میں مختلف برسوں میں تحریر کردہ تین کالم میری نظر سے گزرے ہیں جن سے سہگل سے ان کی عقیدت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس شوق کی جھلکیاں بھی مل جاتی ہیں جس کے لیے انہوں نے زندگی وقف کردی تھی۔
انتظار حسین لکھتے ہیں:
’نام علاؤالدین مظہر، جالندھر کے مہاجر، جالندھر کی ایک ہی چیز انہیں لے دے کے یاد رہ گئی ہے۔ کے۔ ایل۔ سہگل۔ آگے پیچھے نہ کوئی یاد رکھتے ہیں نہ کچھ سنتے ہیں۔ واضح ہو کہ اونچا سنتے ہیں۔ کان میں آلہ لگا رہتا ہے لیکن آلہ لگا کر بھی وہ صرف سہگل ہی کی آوازیں سنتے ہیں، اور سہگل کی ساری آوازیں ان کے پاس محفوظ ہیں۔
ان کا دعویٰ ہے کہ سہگل کا کوئی ایسا ریکارڈ نہیں جو ان کے پاس نہ ہو، سہگل جتنی فلموں میں آئے ان سب میں سے سہگل کی تصویریں انہوں نے جمع کر رکھی ہیں، سہگل پر جہاں جہاں جو کچھ لکھا گیا وہ بھی ان کے پاس اکٹھا ہے، یوں سمجھو کہ ان کا گھر سہگل میوزیم ہے۔ علاؤالدین مظہر شہر میں سونگھتے پھرتے ہیں کہ کسے سہگل کے گانے پسند ہیں، آدمی کو سونگھا اور دبوچ کے اپنے گھر لے گئے، پھر جب تک سہگل کا ایک ایک ریکارڈ اسے سنا نہ دیں اسے بخشتے نہیں۔
انتظار صاحب نے ایک دوسرے کالم میں بتایا ہے کہ انڈیا سے جنگ کے دنوں میں انہیں بس یہی فکر دامن گیر رہتی تھی کہ کوئی گولہ کہیں ان کی متاع عزیز برباد نہ کردے۔
علاؤالدین مظہر کی سہگل کے فن سے قلبی تعلق کے اظہار کی ایک صورت 18 جنوری کو ان کی برسی کا اہتمام کرنا تھا جس میں حاضرین سہگل کے ریکارڈ سن کر فرحت حاصل کرتے تھے۔ اس خاص دن کو انتظار صاحب نے بھی کئی دفعہ ان کے ہاں حاضری دی۔ 18 جنوری 1981 کو ان کے ہاں جانے کی تحریری گواہی سے علاؤالدین مظہر کے گھر کی فضا کے بارے میں معلوم ہوتا ہے:
’دیکھا کہ لوبان سلگتا ہے، اگر بتیاں جلتی ہیں، سہگل کی تصویریں چاروں طرف آویزاں ہیں، ایک تصویر بڑے اہتمام سے کارنس پر سجائی گئی ہے جس پر نقاب پڑی ہے۔ ایک پرانے زمانے کا گرامو فون باجا رکھا ہے، وہی باجا جس کا سہگل کے زمانے میں چلن تھا، ایک طرف چائے دانی رکھی ہے جس پر ایک چٹ لگی ہے، کے ایل سہگل کی چائے دانی، تھوڑی دیر میں تصویر کی نقاب کشائی ہوئی۔ پھر علاؤالدین مظہر صاحب نے پوری قوت سے ہینڈل گھما گھما کر باجے میں چابی بھری اور سہگل کا ریکارڈ لگایا۔ ایک ریکارڈ، دو ریکارڈ، تین ریکارڈ، سہگل کے ریکارڈ بجتے چلے گئے اور ایک بیتا زمانہ زندہ ہوتا چلا گیا۔‘
انتظار صاحب کے کالموں اور ’آتش فشاں‘ میں انٹرویو سے معلوم ہوتا ہے کہ علاؤالدین مظہر کے عشق کا مرکز و محور سہگل کی ذات اور آواز تھی لیکن ان کے پاس دوسرے بہت سے گلوکاروں کی آواز کا خزانہ بھی محفوظ تھا جس سے حاضرین کو محظوظ کرنے سے انہیں انکار نہ تھا، ادبی جریدے ’سویرا‘ کے ایڈیٹر ریاض احمد نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ وہ خاص طور پر پنکج ملک کے ریکارڈ سننے ان کے ہاں گئے تھے۔
لاہور میں سہگل کے اس عاشقِ صادق کے واقف کاروں اور ان کی محفل میں شریک رہنے والوں میں ایک نام معروف نقاد خواجہ محمد زکریا کا ہے جنہوں نے ہمیں بتایا کہ علاؤالدین مظہر رشتے میں حفیظ جالندھری کے بھتیجے تھے اور حفیظ صاحب ان پر بہت اعتماد کرتے تھے، انتظار صاحب نے اپنے کالم میں ان کے ایک منصوبے کا تذکرہ کیا ہے جس کے تحت حفیظ جالندھری کی داستان حیات ان کی آواز میں ریکارڈ ہونا تھی۔
فلم دیو داس نے سہگل کو شہرت کے اوج پر پہنچا دیا تھا اور وہ ہندوستانی فلم انڈسٹری کے پہلے سپر اسٹار بن گئے تھے، ان کے بعد بھی ہیرو بدل بدل کر ’دیو داس‘ بنتی رہی لیکن وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔
علاؤالدین مظہر میں موسیقی کی جوت جگانے کا ذریعہ وہ گرامو فون بنا تھا جو ان کے تایا کے پاس تھا، اس نے انہیں کن رس بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ بڑے ہونے پر سہگل کی آواز کی جادوئی تاثیر نے انہیں دیوانہ بنا دیا، کچھ دل پر لگی چوٹ نے بھی اثر دکھایا۔
علاؤالدین مظہر کے والد شاہ محمد کے پاس بغداد ایئرپورٹ کا ٹھیکا تھا تو انہیں بھی چند سال وہاں رہنے کا موقع ملا تھا۔ 1938 میں بغداد جانے کے لیے وہ والد کے ساتھ کراچی پہنچے اور بندر روڈ پر ہوٹل میں چائے پینے گئے تو دیوداس فلم میں سہگل کی آواز میں اس گیت کا ریکارڈ بج رہا تھا:
’پنچھی کاہے ہوت اداس‘
انہوں نے نوٹ کیاکہ دوسرے ہوٹلوں میں بھی یہی ریکارڈ بج رہا ہے، بغداد پہنچے تو ایک ہندوستانی کے ہوٹل میں یہی آواز کانوں میں پڑی تو ہوٹل کے مالک کی منت سماجت کرکے یہ ریکارڈ نصف پونڈ میں خرید لیا۔
1940 میں جالندھر مستقل واپسی ہوگئی تو سہگل سے محبت کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا، شوق اپنی جگہ لیکن اس کے لیے بھی تو روزگار چاہیے ہوتا ہے سو جالندھر چھاؤنی میں ہوٹل کھول لیا جو چل نکلا، ان کے ہاتھ میں ذائقہ تھا کیونکہ انتظار صاحب نے جب یہ پوچھا کہ موسیقی کے علاوہ بھی کوئی شوق ہے تو علاؤالدین مظہر نے یہ بتایا تھا کہ ان جیسا اچھا کھانا کوئی نہیں بنا سکتا۔ موسیقی اور کھانے کے اس تال میل نے انتظار صاحب کو حیران کردیا۔
موسیقی کے رسیا، ریکارڈ اکٹھے کرنے کے شائق اور پھر ہوٹل کی ذمہ داری، ان سب بکھیڑوں کے ساتھ وہ مطالعے کا شغف بھی رکھتے تھے۔
انتظار حسین اور خواجہ محمد زکریا نے علاؤالدین مظہر کے مکتبۂ جدید پر کام کرنے کی بات کی تو خیال آیا کہ ریاض احمد انہیں ضرور جانتے ہوں گے کہ یہ ادارہ ان کے چچا رشید احمد چوہدری چلاتے تھے، ان کے والد نذیر احمد چوہدری نیا ادارہ کے مالک اور سویرا کے بانی تھے، ریاض صاحب نے علاؤالدین مظہر کے بارے میں بتایا کہ وہ پڑھنے کے بڑے شوقین تھے، تقسیم سے پہلے وہ جالندھرسے ادبی جریدہ ’ادب لطیف‘ اور مکتبہ اردو کی کتابیں منگایا کرتے تھے، اس لیے ان کے چچا اور والد کو جانتے تھے، پاکستان بننے کے بعد یہ شناسائی ہی انہیں مکتبہ جدید لے گئی جہاں سالہا سال انہوں نے کام کیا۔
کتابوں سے اسی تعلق کی وجہ سے انہیں ملکہ ترنم نور جہاں کا قرب حاصل ہوا جو ان سے کتابیں منگوایا کرتی تھیں، وہ شاہ نور اسٹوڈیو ان سے ملنے جاتے تو میڈم بڑے احترام سے پیش آتیں، ایک دن وہاں گئے تو نور جہاں نے ان سے فیض احمد فیض کی کتاب کا تقاضا کیا۔ یہ سائیکل پر انارکلی آئے اور کتاب لے جا کر میڈم کو پیش کردی۔
میڈم کے گانوں کا ریکارڈ بھی ان کے پاس محفوظ تھا جنہیں وہ دو ادوار میں تقسیم کرتے تھے، ان کے بقول: ’نور جہاں کے دو دور ہیں، پہلا دور میرے پاس مکمل ہے، میرا خیال ہے کہ میڈم خود بھی سنیں تو بہت ہنسیں، بڑی اچھی آواز تھی، اب ان کی جو آواز ہے اپنے لحاظ سے ہو سکتا ہے وہ کمال پر پہنچی ہوں لیکن ان کے پہلے دور کی آواز کا جواب نہیں، اس میں فن غالب تھا آج کمرشل پہلو غالب ہے۔‘
جالندھر سے تعلق رکھنے والے علاؤالدین مظہر لاہور میں سنت نگر میں وشنو اسٹریٹ میں رہتے تھے، ان کا انتقال کب ہوا اس کے بارے میں معلوم نہیں ہو سکا۔ البتہ ’آتش فشاں‘ کے انٹرویو سے ان کے سال پیدائش کا تعین ہو سکتا ہے کیونکہ 1937 میں 20 برس کی عمر میں سہگل کی آواز نے ان کے دل کے تاروں کو یوں چھوا کہ عمر بھر کے لیے اس کے عاشق بن گئے، اس سے معلوم ہوتا ہے وہ 1917 میں پیدا ہوئے کیوں کہ ایک اور جگہ انٹرویو کے وقت ان کی عمر 63 سال لکھی ہے اور یہ 1980 میں شائع ہوا تو اس حساب سے بھی 1917 ہی بنتا ہے۔
جالندھر میں وہ ریکارڈ کا بڑا ذخیرہ جمع کر چکے تھے لیکن تقسیم کے وقت وہ سب ضائع ہوگیا جس کا انہیں بڑا صدمہ ہوا لیکن شوق نے نئے ملک میں بھی راستے پیدا کردیے، لوگ تو مال و اسباب کی لوٹ مار میں لگے تھے ادھر انہوں نے تمام توانائیاں موسیقی کے نوادر جمع کرنے میں صرف کردیں اور ایسی قابلِ رشک لائبریری بنائی کہ انڈیا سے بھی لوگ ان کے در دولت پر حاضری دیتے تھے۔
امرتسر ٹی وی بھی ان کے لیے بعض دفعہ بڑا مددگار ثابت ہوا، بعض مطلوبہ گانے اسی ذریعے سے ان کے ریکارڈ کا حصہ بنے مثلاً فلم ’پروانہ‘ کا یہ گیت انہوں نے ٹی وی سے ٹیپ کیا:
’بالم تم پر صبر پڑے مورا میکہ چھڑائے لیو رام‘
اسی طرح سہگل کی برسی پر ہونے والے ٹی وی پروگرام سے انہوں نے یہ ٹھمری
’پیا بن آوت نہیں چین‘
اور فلم پریذیڈنٹ کا یہ گانا ٹیپ کر لیا:
’رہے گی نہ بدریا چھائی‘
سہگل کی یاد میں جالندھر میں میموریل ہال تعمیر ہوا تو اس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے انہیں کسی نے پوچھا تک نہیں جس کا انہیں بڑا رنج ہوا۔
علاؤالدین مظہر کے نوادرات کہاں گئے؟ اس کے بارے میں میں نے فلم اور فلمی گیتوں کے معروف محقق فیاض احمد اشعر سے ایک دفعہ پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ یہ کسی صاحب نے ان کے خاندان سے خرید لیے تھے جس سے بہت سال پہلے ان کی ملاقات بھی ہوئی تھی لیکن اب وہ صاحب اور علاؤالدین مظہر کا خزینہ کس حال میں ہیں؟ اس کی انہیں خبر نہیں۔
یہاں معروف ادیب بانو قدسیہ کے سہگل اور علاؤالدین مظہر سے تعلق اور فلموں سے ان کی گہری دلچسپی کا تذکرہ بھی ہو جائے تو مضائقہ نہیں۔ 1959 میں بانو نے جیلانی بانو کو خط میں لکھا تھا:
’میں نے شانتا رام کی ’جھنک جھنک پائل باجے‘ دو بار دیکھی ہے اور 20 بار پھر دیکھنے کی تمنا دل میں ہے، اس فلم نے مجھے عرصہ تک دیوانہ بنائے رکھا ہے، نہ صرف اس کے ناچ گانے بلکہ جو اس فلم کا ٹیمپو تھا اور جس حسن و خوبی سے اتنے ناچ گانے سموئے گئے تھے بڑی قابل دید چیز ہے۔‘
بانو قدسیہ نے ’راہِ رواں‘ میں پاکستان بننے سے پہلے دھرمسالہ میں قیام کے دوران فلموں کے شوق کا تذکرہ کیا ہے۔ سہگل کی فلم ’دیوداس‘ دیکھنے کا حوالہ بھی دیا ہے، انہوں نے لکھا کہ سہگل جب دیوداس کے روپ میں یہ گاتا: ‘دکھ کے اب دن بیتت ناہیں’ تو دل میں شام سی پڑ جاتی۔
بانو قدسیہ نے فلمی اداکاروں کی تصویروں کا ایک البم بھی بنا رکھا تھا جس کے پہلے صفحے پر سہگل کی تصاویر تھیں۔
بانو قدسیہ نے سہگل سے ملاقات کی روداد کچھ یوں رقم کی ہے :
’کندن لال سہگل ایک مرتبہ دھرمسالہ آئے تھے، ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے۔ وہاں ہم ان سے اسی عقیدت سے ملنے گئے جس طرح سارے فین (عقیدت مند) جاتے ہیں، سہگل اپنا ایک ٹی سیٹ بیچ رہے تھے۔ امی نے وہ ٹی سیٹ 200 روپے میں خرید لیا، عجیب بات ہے کہ وہ سیٹ میرے پاس 121-c (ماڈل ٹاؤن لاہور میں اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا گھر جس کا نام انہوں نے داستان سرائے رکھا تھا) تک رہا اور بالآخر میں نے اسے ایک ایسے شخص کی نذر کیا جو سہگل کی یادیں جمع کر رہا تھا۔‘
بانو قدسیہ نے یہ ٹی سیٹ جس شخص کو دیا وہ کوئی اور نہیں علاؤالدین مظہر تھے، اس بات کی تصدیق ’آتش فشاں‘ کے انٹرویو سے بھی ہوتی ہے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کا علاؤالدین مظہر کے ہاں جانا رہتا تھا۔
یہ ٹی سیٹ علاؤالدین مظہر نے بہت سینت کر رکھا، اس کی چائے دانی انہیں کس قدر عزیز تھی اس کے بارے میں انتظار حسین نے لکھا:
’ریکارڈ اور تصویریں دکھانے کے بعد کہاکہ اچھا اب میں اصلی چیز دکھاتا ہوں، ہم نے کہاکہ وہ کیا ہے؟ جواب میں ایک پرانی دھرانی چائے دانی نکالی۔ کہاکہ سہگل اس میں چائے پیا کرتا تھا، یہ چائے دانی ہندوستان پاکستان میں کسی کے پاس نہیں ہے، میرے پاس ہے۔‘
سہگل کو اپنے زمانے میں ہی نہیں بعد میں بھی کیسے کیسے چاہنے والے ملے کیونکہ ان کی آواز کا جادو سر چڑھ کر بولتا رہا، علاؤالدین مظہر جالندھر سے لاہور ہجرت کرکے آئے تھے، تقسیم کے بعد لاہور سے ہجرت کرنے والے سہگل کے ایک عاشق پر ان نول سے ہماری بھی ملاقات ہو چکی ہے، ان کے عشق کی حدت تو علاؤالدین مظہر کے پاسنگ نہیں تھی البتہ انہیں یہ اعزاز حاصل تھا کہ 1937 میں لاہور کے منٹو پارک میں کے ایل سہگل نے اپنی آواز کا جادو جگایا تو وہ سامعین میں موجود تھے، اچھی بات یہ ہوئی کہ انہوں نے انگریزی میں لاہور کے بارے میں اپنی کتاب میں ایک باب سہگل کے دورہ لاہور کے بارے میں مختص کیا ہے، اس کے بعد سہگل سے محبت کا اظہار انہوں نے اس عظیم گلوکار پر کتاب لکھ کر کیا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ پران نول کی یہ کتاب ان کے دستخط کے ساتھ میری لائبریری میں موجود ہے اور سرشار کرنے والا احساس دلاتی ہے کہ سہگل سے محبت کی کم از کم یہ یادگار میرے پاس محفوظ ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔