مخصوص نشستوں سے متعلق نظر ثانی کیس : ریلیف سنی اتحاد کی جگہ پی ٹی آئی کو دیا گیا، جسٹس امین الدین کے ریمارکس

پیر 16 جون 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

سپریم کورٹ آف پاکستان میں مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے خلاف دائر نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ مخصوص نشستوں کا ریلیف سنی اتحاد کونسل کی بجائے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو دیا گیا۔ انہوں نے وکیل فیصل صدیقی سے استفسار کیا کہ بطور وکیل سنی اتحاد، کیا وہ اس فیصلے سے متفق ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ وہ فیصلے سے متفق ہیں۔

جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 11 رکنی آئینی بینچ نے کیس کی سماعت کی جسے براہ راست نشر کیا گیا، سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا مخصوص نشستیں خالی چھوڑی جا سکتی تھیں، انہوں نے کہا کہ عدالت کو اس نکتے پر وکلا کی معاونت درکار ہے۔ فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ پہلے اکثریتی فیصلہ مکمل پڑھنا چاہتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس: 3 دن کی مدت 15 روز تک بڑھاتے ہوئے آئین ری رائٹ کیا گیا، جسٹس مسرت ہلالی کے ریمارکس

فیصل صدیقی نے عدالت کو بتایا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا مفاد مخصوص نشستوں کے معاملے میں ایک تھا، اس لیے انہیں پی ٹی آئی کو نشستیں ملنے پر اعتراض نہیں۔ تاہم جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ جب دونوں جماعتوں کا آئینی و تنظیمی ڈھانچہ مختلف ہے تو مفاد کیسے ایک ہو سکتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے بھی کہا کہ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل کا مخصوص نشستوں پر مفاد مشترک ضرور ہو سکتا ہے، فیصل صدیقی نے جسٹس منصور علی شاہ کے ریمارکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ حالات ایسے بنے کہ ارکان کو سنی اتحاد کونسل میں شامل ہونا پڑا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا کسی امیدوار نے خود ان وجوہات کا ذکر کیا جن کی بنیاد پر اسے سنی اتحاد میں جانا پڑا یا یہ بتایا کہ وہ مجبور تھے، عدالت نے یہ بھی جاننا چاہا کہ کیا اس حوالے سے کوئی باقاعدہ موقف پیش کیا گیا۔

مزید پڑھیں: سنی اتحاد کونسل مخصوص نشستوں کی حقدار نہیں، جسٹس جمال خان مندوخیل کے ریمارکس

فیصل صدیقی نے وضاحت کی کہ اکثریتی فیصلے کے مطابق یہ بات اہم نہیں کہ کسی فریق نے خود عدالت سے رجوع کیا یا نہیں، بلکہ اہم قانونی نکات کا تعین ضروری تھا۔

انہوں نے مزید کہا کہ مخصوص نشستیں عام طور پر ممبران کے تناسب سے دی جاتی ہیں، تاہم بڑی تعداد میں آزاد امیدواروں کی کامیابی کی وجہ سے پیچیدگیاں پیدا ہوئیں، ان کے مطابق پی ٹی آئی سے وابستہ آزاد امیدواروں نے مکمل انصاف کا تقاضا کیا۔

وکیل فیصل صدیقی نے بینچ کی توجہ اس اہم سوال کی طرف دلائی کہ کیا آزاد امیدواروں کے حصے کی مخصوص نشستیں 3 مختلف جماعتوں میں تقسیم کی جا سکتی ہیں، ان کے مطابق یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ آیا پی ٹی آئی نے بطور جماعت انتخابات میں حصہ لیا یا نہیں۔

مزید پڑھیں:مخصوص نشستوں کا کیس: کیا 2 ججوں کو واپس لانے کے لیے کوئی دعوت نامہ بھیجیں؟ جسٹس محمد علی مظہر

جس پر جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے سامنے یہ سوال نہیں تھا کہ پی ٹی آئی نے بطور جماعت الیکشن لڑا یا نہیں، فیصل صدیقی کا مؤقف تھا کہ اکثریتی فیصلے نے اس نکتے کو بھی طے کر دیا ہے۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ فیصلہ تو 13 جنوری 2024 کو آیا، لیکن امیدواروں نے دسمبر میں کاغذات نامزدگی جمع کرائے، اس وقت بھی بعض امیدواروں نے خود کو آزاد ظاہر کیا، الیکشن ایکٹ کے رول 94 کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے، جس کے مطابق ریٹرننگ افسر آزاد حیثیت سے امیدوار قرار دینے کا مجاز نہیں۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ بینچ کے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی کا انتخابی نشان واپس ہونے کے باوجود، کیا جماعت کے طور پر اس کا وجود برقرار تھا، ان کا کہنا تھا کہ انتخابی نشان سے محرومی کے باوجود، پی ٹی آئی کے امیدوار جماعتی شناخت کے ساتھ انتخابات میں شریک ہوئے۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں کے کیس کی لائیو اسٹریمنگ کا حکم، آئینی بینچ کی تشکیل پر اعتراضات مسترد

اس پر وکیل فیصل صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ الیکشن کمیشن نے 22 دسمبر 2023 کو پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لیا تھا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ان کا تنازع یہ نہیں کہ امیدوار آزاد تھے بلکہ یہ ہے کہ بعد ازاں ان امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی۔

جسٹس امین الدین نے استفسار کیا کہ اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ آزاد امیدواروں نے بعد میں سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا، اس پر فیصل صدیقی کا کہنا تھا کہ وہ نہ پی ٹی آئی کے حامی ہیں، نہ سنی اتحاد کے، بلکہ وہ صرف سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے کی حمایت کر رہے ہیں۔

جسٹس صلاح الدین پنہور نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ نے ماضی میں جو ناانصافی کی، مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے نے اس کا مداوا کیا، جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ اگر ریٹرننگ افسر کو یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کو آزاد امیدوار قرار دے، تو پھر سپریم کورٹ کیسے کسی امیدوار کو پی ٹی آئی کا نمائندہ قرار دے سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں کا نظرثانی کیس: 2 ججز الگ ہوگئے، نظرثانی کے لیے ججز کی تعداد یکساں ہونا ضروری ہے، سپریم کورٹ

جس پر وکیل فیصل صدیقی کا مؤقف تھا کہ اس سوال کا جواب خود جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال مندوخیل کے تحریر کردہ ایک مشترکہ فیصلے میں موجود ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ انہوں نے یہ تصور کیا کہ تحریک انصاف کے 39 امیدواروں نے پارٹی جوائن ہی نہیں کی۔ اس پر وکیل فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ ٹائم لائن تو آپ نے بھی تبدیل کی ہے، جس پر جسٹس مندوخیل نے وضاحت طلب کی کہ “کون سی ٹائم لائن تبدیل ہوئی ہے، فیصل صدیقی نے کہا کہ کاغذات نامزدگی کے حوالے سے ٹائم لائن میں تبدیلی ہونا تھی۔

بحث کے دوران جسٹس مندوخیل نے کہا کہ اگر انہوں نے اپنے فیصلے میں کسی قسم کی غلطی کی ہے تو وہ اس کی تصحیح کے لیے تیار ہیں، جس پر فیصل صدیقی نے اعتماد ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ہم تو آپ کے فیصلے کا دفاع کریں گے، آپ جو بھی کہیں۔

مزید پڑھیں: تحریک انصاف کو مخصوص نشستیں نہیں ملیں گی، فیصل واوڈا کا دعویٰ

جسٹس مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ کیا اکثریتی فیصلے میں 41 اراکین کو کسی بھی سیاسی جماعت کا امیدوار ڈیکلیئر نہیں کیا گیا، انہوں نے خود ہی وضاحت دی کہ مطلب 41 کی حد تک الیکشن کمیشن نے ٹھیک کیا، جس پر فیصل صدیقی بولے؛ الیکشن کمیشن نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ 41 امیدواروں کو پی ٹی آئی کا حصہ ظاہر نہیں کر سکتے۔

جسٹس مندوخیل نے وضاحت کی کہ ہم نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے 39 کی حد تک غلطی کی ہے، جس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ اکثریتی رائے میں بھی یہی کہا گیا کہ 39 امیدواروں کی حد تک الیکشن کمیشن سے غلطی ہوئی ہے۔

سپریم کورٹ نے مخصوص نشستوں کے کیس میں خیبرپختونخوا حکومت اور صوبائی اسمبلی کے اسپیکر بابر سلیم سواتی کی جانب سے فریق بنانے کی درخواست منظور کرتے ہوئے ان کی درخواست پر نوٹس بھی جاری کر دیے۔

مزید پڑھیں: مخصوص نشستوں کا معاملہ: جسٹس عائشہ ملک کا چیف جسٹس کے نام شکایتی خط

سماعت کے دوران ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا نے مؤقف اپنایا کہ ہم پشاور ہائیکورٹ میں مرکزی کیس اور بعد ازاں سپریم کورٹ میں بھی فریق رہ چکے ہیں، لہٰذا ہمیں مخصوص نشستوں سے متعلق نظرثانی کیس میں بھی فریق بنایا جائے۔

اس پر اٹارنی جنرل نے اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ میں یہ فریق نہیں تھے، صرف سپریم کورٹ میں شامل ہوئے تھے۔

عدالت نے فریق بننے کی درخواست منظور کرتے ہوئے کہا کہ خیبرپختونخوا حکومت اور اسپیکر صوبائی اسمبلی کی شرکت پر نوٹس جاری کیے جا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ کو عدالتی ریفارمز کا معلوم ہونے پر مخصوص نشستوں کا فیصلہ آگیا، جو براہِ راست مداخلت تھی، بلاول بھٹو

سماعت کے دوران فیصل صدیقی ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نے بینچ پر اعتراضات عائد کیے تھے، جنہیں مسترد کر دیا گیا، تاہم اعتراضات مسترد کرنے کی کوئی تفصیلی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔

جسٹس امین الدین خان نے ریمارکس دیے کہ ہوسکتا ہے تفصیلی وجوہات جاری ہو چکی ہوں۔ اس پر فیصل صدیقی نے کہا کہ جیسے ہی تفصیلی وجوہات جاری ہوں گی، ہم نظرثانی کی درخواست دائر کریں گے۔

مخصوص نشستیں پی ٹی آئی کو دینے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کیخلاف نظرثانی کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی کل بھی اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

تازہ ترین

لاہور میں ہیوی وہیکلز ڈرائیونگ ٹریننگ اسکول کا قیام، وزیر اعلیٰ پنجاب کا محفوظ سفر یقینی بنانے کا وژن

ملک کے شمال مشرق میں زلزلے کے جھٹکے، لوگ گھروں سے باہر نکل آئے

ڈیرہ اسماعیل خان: داناسر میں المناک ٹریفک حادثہ، ایک ہی خاندان کے 11 افراد جاں بحق

ایشیا کپ، 41 سال بعد پاک-بھارت فائنل ہونے کو تیار، ٹورنامنٹ فائنلز میں پاکستان کا پلڑا بھاری

پی ٹی سی ایل گروپ اور مرکنٹائل نے پاکستان میں آئی فون 17 کی لانچ کا اعلان کردیا

ویڈیو

’میڈن اِن پاکستان‘: 100 پاکستانی کمپنیوں نے بنگلہ دیشی مارکیٹ میں قدم جمالیے

پولیو سے متاثرہ شہاب الدین کی تیار کردہ الیکٹرک شٹلز چینی سواریوں سے 3 گنا سستی

وائٹ ہاؤس: وزیراعظم اور امریکی صدر کے درمیان اہم ملاقات ختم، فیلڈ مارشل عاصم منیر بھی شریک تھے

کالم / تجزیہ

بگرام کا ٹرکٖ

مریم نواز یا علی امین گنڈا پور

پاکستان کی بڑی آبادی کو چھوٹی سوچ کے ساتھ ترقی نہیں دی جا سکتی