ترک صدر رجب طیب اردگان نے کہا ہے کہ ترکیہ اپنی قومی سیاست کو میگزین کے سرورق کی ہدایات کے مطابق چلنے کی اجازت نہیں دے گا۔
رجب طیب اردگان نے جمعہ کو ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ہم اپنی داخلی سیاست سمیت قومی قوت ارادی کو ان میگزین کے سرورق سے متاثر نہیں ہونے دیں گے، جو عالمی طاقتوں کی فعالیت اور اثر پذیری کے آلہ کار ہیں۔
صدر اردگان کے یہ نسبتاً طنزیہ ریمارکس برطانوی میگزین ’دی اکانومسٹ‘ کے ایک سرورق کے ساتھ ترک صدر کو نشانہ بنانے کے بعد سامنے آئے ہیں۔ میگزین کےسرورق پر مختلف نعرے درج تھے کہ جمہوریت کو بچاؤ، اردوگان کو جانا چاہیے، اور ووٹ!
ترکیہ میں صدارتی اور پارلیمانی انتخابات 14 مئی کو منعقد ہورہے ہیں۔
صدارتی بیلٹ پر ترک ووٹرز دوبارہ انتخاب کے خواہاں موجودہ ترک صدر اردگان، اور حزب اختلاف کے سرکردہ امیدواروں کمال کلیک دار اوغلو، محرم انس اور سنعان اوگن میں سے کسی ایک کو آئندہ مدت کے لیے صدر منتخب کریں گے۔
دریں اثنا 24 سیاسی جماعتیں اور 151 آزاد امیدوار 600 ارکان پر مشتمل ترک پارلیمنٹ میں نشستوں کے حصول کے لیے میدان میں ہیں۔

‘خود اعتمادی’ کی پالیسی
ترکی کی خارجہ پالیسی کے بارے میں صدر اردگان نے کہا کہ ترک سفارت کاروں کی کوششوں سے ملک نے ’خود اعتمادی، کاروباری اور انسان دوست‘ پالیسی کو نافذ کیا ہے۔
ٹرک صدر کے مطابق اپنے غیر ملکی نمائندوں کی تعداد 163 سے بڑھا کر 260 کرتے ہوئے ترکیہ دنیا کے سب سے بڑے سفارتی نیٹ ورک والے پانچ ممالک میں سے ایک بن چکا ہے۔
صدر اردگان کا کہنا تھا کہ بوقتِ ضرورت ترکیہ اپنے تمام وسائل کے ساتھ بھائیوں کے ساتھ کھڑا رہے گا، جیسا کہ لیبیا، شام اور نگورنو کاراباخ میں رہا، جہاں 30 سالہ آرمینیائی تسلط کا خاتمہ ممکن ہوا۔
اردگان نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ترکیہ بحیرہ اسود کے اناج کے معاہدے کے ذریعے علاقائی بحرانوں کے حل میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔
’ایک ریاست کے طور پر جس کی تاریخ شاندار فتوحات سے بھری ہوئی ہے، ہم اس مقام پر پہنچ رہے ہیں جس کے ہم بین الاقوامی نظام میں مستحق ہیں۔‘
صدر رجب طیب اردگان نے امید ظاہر کی کہ ترکی کی صدی کے ساتھ، ہم ان تمام سفارتی کامیابیوں کو سرفہرست رکھیں گے۔