پاکستان کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا امن نوبیل پرائز کے لیے نامزد کیے جانے کے بعد ایک نئی بحث شروع ہوگئی ہے، دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس بحث میں خود امریکی صدر بھی شامل ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ٹروتھ‘ پر پوسٹ کیے گئے اپنے بیان میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ’مجھے جمہوری جمہوریہ کانگو اور جمہوریہ روانڈا کے درمیان معاہدہ کروانے پر امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا، مجھے ہندوستان اور پاکستان کے درمیان جنگ رکوانے پر بھی امن کا نوبیل انعام نہیں ملے گا‘۔
US President Donald Trump posts, "… I won’t get a Nobel Peace Prize for this (Treaty between the Democratic Republic of the Congo, and the Republic of Rwanda), I won’t get a Nobel Peace Prize for stopping the War between India and Pakistan, I won’t get a Nobel Peace Prize for… pic.twitter.com/vboXwZXjXf
— ANI (@ANI) June 20, 2025
انہوں نے لکھا کہ ’میں یہ بتاتے ہوئے بہت خوش ہوں کہ میں نے، وزیر خارجہ مارکو روبیو کے ساتھ مل کر، جمہوری جمہوریہ کانگو اور روانڈا کے درمیان ایک شاندار معاہدہ طے کرایا ہے۔ یہ معاہدہ ایک ایسے تنازع کے خاتمے کے لیے ہے جو کئی دہائیوں سے جاری تھا، اور جس میں بے پناہ خونریزی اور ہلاکتیں ہوئیں شاید دنیا کے اکثر جنگوں سے بھی زیادہ‘۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’روانڈا اور کانگو کے نمائندے پیر کو واشنگٹن آ رہے ہیں تاکہ معاہدے پر دستخط کریں۔ یہ افریقہ کے لیے ایک عظیم دن ہے، اور صاف الفاظ میں، دنیا کے لیے ایک زبردست دن ہے‘۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’مجھے بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ رکوانے پر بھی نوبیل امن انعام نہیں ملے گا، مجھے سربیا اور کوسوو کے درمیان جنگ روکنے پر بھی نوبیل انعام نہیں ملے گا، مجھے مصر اور ایتھوپیا کے درمیان امن قائم رکھنے پر بھی نوبیل انعام نہیں ملے گا۔
انہوں نے قوسین میں وضاحت بھی کہ یہ وہی ایتھوپین ڈیم ہے جس کی مالی معاونت امریکا نے کی، اور جو دریائے نیل کے پانی کو نمایاں طور پر کم کر دیتا ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ مجھے مشرقِ وسطیٰ میں ابراہم معاہدے کرانے پر بھی نوبیل انعام نہیں ملے گا، حالانکہ اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو مزید ممالک اس میں شامل ہوں گے، اور مشرقِ وسطیٰ کو پہلی بار ’صدیوں‘ میں ایک متحد پلیٹ فارم پر لائیں گے‘۔
انہوں نے اپنی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے درج کیا کہ ’ نہیں، مجھے نوبیل امن انعام نہیں ملے گا، چاہے میں کچھ بھی کر لوں، چاہے وہ روس/یوکرین ہو یا اسرائیل/ایران، نتیجہ کچھ بھی ہو، لوگ جانتے ہیں، اور میرے لیے یہی سب سے اہم بات ہے‘۔
’اگر میرا نام اوباما ہوتا تو مجھے نوبیل انعام 10 سیکنڈ میں دے دیا جاتا‘
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ ٹرمپ نوبیل انعام کی خواہش کا اظہار کر رہے ہوں۔ یہ انعام ان افراد کو دیا جاتا ہے جنہوں نے بین الاقوامی بھائی چارے، فوجی طاقت کے خاتمے، اور امن کے فروغ میں نمایاں کردار ادا کیا ہو۔
ٹرمپ کو اس بات پر بھی مایوسی ہے کہ ان کے پیش رو باراک اوباما کو ان کی صدارت کے پہلے سال میں ہی نوبیل امن انعام دے دیا گیا تھا، جسے ٹرمپ ’ناانصافی‘ سمجھتے ہیں۔ اوباما کو یہ انعام عالمی سفارتکاری اور جوہری ہتھیاروں سے پاک دنیا کے وژن پر کام کرنے کے لیے دیا گیا تھا۔
گزشتہ سال ٹرمپ نے طنزیہ طور پر کہا تھا’اگر میرا نام اوباما ہوتا تو مجھے نوبیل انعام 10 سیکنڈ میں دے دیا جاتا‘۔
ان کے سابق مشیر قومی سلامتی جان بولٹن، جو اب ٹرمپ کے شدید ناقد ہیں، نے نیویارک ٹائمز کو بتایا تھا کہ ’ٹرمپ کی عوامی زندگی کا مرکز خود ان کی ذات کا جلال ہے، اور نوبیل انعام ان کے کمرے کی دیوار پر سجانے کے لیے ایک بہترین چیز ہوتی‘۔