عالمی وبا کووڈ کے بعد بہت سی کہانیاں زبان زد عام ہوئیں۔ کچھ کے مطابق کووڈ ایک سازش تھی، جس کے تحت بے شمار انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ کچھ کے نزدیک کووڈ وائرس اور فلو میں کوئی خاص فرق نہیں۔ کچھ نے کووڈ ویکسین کو ان تمام بیماریوں کا ذمہ دار ٹھہرایا جو کووڈ کے بعد دیکھنے میں آئیں، آ رہی ہیں اور جن میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے ان میں سر فہرست ہارٹ اٹیک اور کینسر ہیں۔
ہم آپ کو ایک تحقیق سنانا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے کچھ بدنام زمانہ وائرسسز کے بارے میں بات کرلیں۔
دنیا میں سب سے قدیم اور سب سے خطرناک Rabies وائرس ہے جسے ہم سب پاگل کتے کے کاٹنے سے ہونے والی ہلاکت کے نام سے جانتے ہیں ۔ کتے کے کاٹنے کے بعد ریبیز وائرس اگر جسم میں داخل ہو کر بیماری کی علامات ظاہر کر دے تو پھر کوئی علاج ممکن نہیں۔ علامات ظاہر ہونے سے پہلے پہلے بچاؤ کے ٹیکے لگوائے جا سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹروں کی سیاست!
ایڈز کا نام اسی کی دہائی میں سننے کو ملا جب یہ بیماری ہومو سیکشوئل مردوں کے حوالے سے سامنے آئی اور سب نے توبہ توبہ کرتے ہوئے کانوں کو ہاتھ لگائے۔ اس زمانے میں جس کے جسم میں بھی وائرس گیا، اس کی قوت مدافعت کو ختم کرتے ہوئے جان لے کر ہی ٹلا۔ آج ہم اس وائرس کو HIV کے نام سے جانتے ہیں۔
تاریخ میں رقم ہے کہ اس وائرس کا آغاز تقریباً ایک صدی پہلے کمیرون کے جنگلوں میں ہوا۔ بے شمار لوگ اس کا نشانہ بنے لیکن علاج تقریباً 70 برس کے بعد وجود میں آیا اور آج ایڈز وائرس اس طرح جاں لیوا نہیں رہا۔
لیکن جان لیجیے کہ جس کو بھی ایڈز ہو وہ دواؤں سے کنٹرول تو ہو جاتا ہے لیکن اس کے جسم سے یہ Retrovirus ختم نہیں ہوتا۔
ہیپاٹائٹس سی وائرس کا نام بھی اجنبی نہیں۔ ایک بار جسم میں داخل ہو جائے تو جگر کا بیڑا غرق کرتے ہوئے کالے یرقان میں مبتلا کرتا ہے۔ اس کا علاج بھی دریافت ہو چکا ہے۔
ڈینگی بخار کا نام سے تو وطن عزیز میں بچہ بچہ واقف ہے۔ مچھروں کی مدد سے پھیلنے والا یہ وائرس خون میں پلیٹلیٹس کی تعداد گھٹاتے ہوئے موت کے گھاٹ اتارتا ہے اور ہر برس بڑے طمطراق سے مچھروں پر سواری کرتے ہوئے لوگوں کو نشانہ بناتا ہے۔
پولیو وائرس اسپائنل کارڈ نروز کو نشانہ بناتے ہوئے تباہ کرتا ہے، نتیجتاً ذہن اور جسم کے درمیان رابطہ منقطع ہو جاتا ہے۔ ٹانگ کام کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ اس سے بچنے کی ویکسین بنائی جا چکی ہے مگر اسے بھائی لوگوں نے متنازع بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور پولیو ویکسین ورکرز کا جو حال کیا گیا ہے وہ سر پیٹنے کے لیے کافی ہے۔ پولیو وائرس کا نشانہ بننے والے بے شمار لوگ ہمارے بیچ موجود ہیں۔
چیچک کے وائرس کی کہانی ہم سب جانتے ہیں کہ کس قدر محنت اور کوشش سے اسے ختم کیا گیا لیکن اب سننے میں آرہا ہے کہ یہ پھر سے زندہ ہونے کی کوشش میں ہے۔ اس وائرس کا شکار بننے والے لوگ اب بھی موجود ہیں۔
کانگو وائرس کا نام ہم نے بچپن میں سنا جب پنڈی کے سرجن ڈاکٹر متین ایک مریض کا آپریشن کرنے کے بعد اپنی جان گنوا بیٹھے۔ کانگو وائرس خون کو اس قدر پتلا کر دیتا ہے کہ جسم کے اندر شریانیں پھٹ جاتی ہیں اور خون بہنے لگتا ہے۔
مزید پڑھیے: بچے کے دل کی دھڑکن ابھی باقی ہے !
ہیپاٹائٹس بی وائرس اور فلو وائرس کا نام بھی اجنبی نہیں۔ دونوں کی ہلاکت انگیزی کا گو زیادہ چرچا نہیں ہوا مگر سائنس کی دنیا میں سب جانتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔
آج کل برڈ فلو وائرس کے پھیلاؤ کا چرچا ہے۔
روٹا وائرس بچوں میں اسہال کی بیماری کے حوالے سے جاں لیوا ہے۔
اس کے علاوہ ایبولا وائرس، ماربرگ واہرس اور ہیٹا وائرس بھی دنیا کےان وائرسسز میں شامل ہیں جنہیں خطرناک مانا جاتا ہے۔
اب آئیے کووڈ کی طرف جس کا آغاز سنہ 2019 میں ہمارے سامنے ہوا، دنیا میں اس وبا سے مرنے والوں کو ہم نے دفن ہوتے دیکھا، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ اب بھی اس کے وجود سے انکار پر لوگ مصر ہیں۔ اس کے اثرات کو ویکسین کے کھاتے میں ڈال کر وہ شتر مرغ بننا چاہتے ہیں جو اپنا سر ریت میں چھپا کر سمجھتا ہے کہ خطرہ ٹل گیا۔
ایک بات اور جان لیجیے کہ دنیا میں ابھی تک صرف اور صرف چیچک کے وائرس کو ختم کیا گیا ہے، باقی سب وائرسسز اسی طرح موجود ہیں اور بار بار پلٹ کر حملہ کرتے رہتے ہیں۔
مزید پڑھیں: جوش ملیح آبادی، ڈاکٹر رشید جہاں اور آج کی اداکارائیں !
اب ہمارا سوال سن لیجیے، اگر آپ ڈینگی وائرس، ریبز وائرس، ہیپاٹائٹس بی اور سی وائرس، ایڈز وائرس اور چیچک وائرس کے وجود اور نقصان سے انکار نہیں کرتے تو پھر کووڈ کی ہلاکت انگیزی کو کیوں جھٹلا رہے ہیں؟
باقی آئندہ
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔