مادر ملت فاطمہ جناح: تحریکِ پاکستان کی خاموش مگر مضبوط آواز

بدھ 9 جولائی 2025
author image

سعدیہ سویرا

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

جب تاریخ کی کتابوں میں تحریکِ پاکستان کا تذکرہ ہوتا ہے، تو نگاہیں قائداعظم محمد علی جناح پر مرکوز ہو جاتی ہیں۔ لیکن ان کے سائے میں ایک ایسی شخصیت بھی موجود تھی جس نے ہر قدم پر ان کا ساتھ دیا، ان کے نظریے کو طاقت دی، اور خاموشی سے وہ کام کیا جو ایک بلند آواز خطیب یا سیاست دان بھی نہ کر پاتا۔ یہ شخصیت محترمہ فاطمہ جناح کی تھی، جنہوں نے تحریکِ پاکستان کو ایک ماں، ایک بہن، اور ایک نظریاتی سپاہی کی حیثیت سے سینچا۔

30 جولائی 1893 کو کراچی کی فضاؤں میں ایک بچی کی پہلی چیخ گونجی، جسے بعد میں قوم نے ماں کا درجہ دیا۔ یہ وہ دور تھا جب برصغیر کی مسلمان عورت پردے کی دیواروں کے پیچھے زندگی گزارتی تھی۔ مگر اس بچی کی آنکھوں میں روشنی تھی، جو صرف گھریلو زندگی تک محدود رہنے والی نہیں تھی — وہ چراغ تھی جو اندھیروں سے لڑنے کے لیے پیدا ہوئی۔

فاطمہ جناح نے انگریزی دور کے تعلیمی نظام سے ڈینٹل سرجری کی تعلیم حاصل کی، اور برصغیر کی پہلی مسلم ڈینٹل سرجن خواتین میں اپنا نام درج کروایا۔ یہ کوئی معمولی کارنامہ نہیں تھا، بلکہ ایک بیٹی کا اپنے والدین، اپنے زمانے، اور خود اپنی ذات سے وعدہ تھا کہ وہ زندگی کو بامقصد بنائے گی۔

جب محمد علی جناح نے سیاست کو اپنا میدان بنایا، تو فاطمہ جناح نے اپنی ذاتی زندگی کو ان کے خواب پر قربان کر دیا۔ ’وہ میری واحد سچی ساتھی تھیں‘ — قائداعظم کے ان الفاظ میں وہ گہرائی چھپی ہے جسے صرف وہی محسوس کر سکتا ہے جس نے بھائی بہن کی بے مثال محبت دیکھی ہو۔ وہ ان کے ساتھ نہ صرف گھریلو زندگی میں شریک رہیں بلکہ تحریکِ پاکستان میں ان کا سایہ بن کر کھڑی رہیں۔

محمد علی جناح کی اہلیہ، رتی جناح کے انتقال کے بعد فاطمہ جناح نے بھائی کی خدمت اور ہمراہی کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔ وہ نہ صرف ان کے ساتھ رہنے لگیں بلکہ ان کی سیاسی سرگرمیوں میں بھی بتدریج شامل ہو گئیں۔ 1937 کے بعد جب محمد علی جناح نے دوبارہ سیاسی قیادت کی باگ ڈور سنبھالی، فاطمہ جناح نے بھی خود کو تحریک میں پیش کر دیا۔

ان کا سب سے پہلا ہدف مسلمان خواتین کو بیدار کرنا تھا۔ اس دور میں برصغیر کی مسلمان خواتین سیاسی میدان سے دور تھیں۔ فاطمہ جناح نے یہ دیوار توڑی۔ وہ خواتین کے الگ اجتماعات میں شریک ہوتیں، تقریریں کرتیں، اور انہیں قائل کرتیں کہ پاکستان کا خواب صرف مردوں کا نہیں، ہم سب کا خواب ہے۔ ان کے الفاظ سادہ ہوتے، لیکن انداز ایسا کہ دل میں اتر جائے۔

’عورت اگر ماں ہے، تو قوم کی پہلی درسگاہ بھی ہے۔ اگر وہ بیدار نہ ہوئی، تو نسلیں سوئی رہیں گی۔‘

انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی خواتین ونگ کو فعال بنایا، کراچی، دہلی، لاہور، اور بمبئی جیسے شہروں میں خواتین کنونشنز سے خطاب کیا، اور سینکڑوں خواتین کو قائل کیا کہ وہ تحریک کا حصہ بنیں۔ یہ وہ وقت تھا جب پردہ نشین خواتین قوم کی نجات کی دعاؤں کے ساتھ، جدوجہد کا عملی حصہ بن گئیں — اور یہ سب فاطمہ جناح کی قیادت کے بغیر ممکن نہ تھا۔

فاطمہ جناح صرف گھریلو مشیر نہیں تھیں، وہ میدان میں بھی قائد کے ساتھ کھڑی تھیں۔ 1940 کے قرارداد پاکستان کے بعد انہوں نے خواتین میں اس کا پیغام پھیلایا۔ وہ جلسوں میں شریک ہوتیں، ریلیوں میں شامل ہوتیں، اور خواتین کو سیاسی شعور سے روشناس کرتیں۔ وہ قائداعظم کی ہمراہ، مددگار، اور نظریاتی ساتھی تھیں۔ اگر محمد علی جناح ایک فلسفہ تھے، تو فاطمہ جناح اس فلسفے کی تشریح تھیں۔

تحریکِ پاکستان کے آخری برسوں میں فاطمہ جناح نے ریڈیو پر اردو اور انگریزی میں ایسی تقاریر کیں جنہوں نے قوم میں نئی روح پھونکی۔ ان کی آواز میں وہ ٹھہراؤ تھا جو دل کو سکون دے، اور وہ قوت جو حوصلہ پیدا کرے۔

ان کی تقریروں کے الفاظ آج بھی زندہ ہیں۔ 

’مسلمان عورتوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ صرف گھروں کی زینت نہیں، وہ قوم کی معمار بھی ہیں۔ پاکستان صرف ایک ملک نہیں، ایک نظریہ ہے — اور ہم سب اس نظریے کے محافظ ہیں‘۔

تحریک کے آخری ایام میں محمد علی جناح کی صحت بگڑ گئی۔ بہت کم لوگ اس حقیقت سے واقف تھے — مگر فاطمہ جناح ہر لمحے ان کے ساتھ رہیں۔ انہوں نے قائد کی بیماری کو خفیہ رکھا تاکہ تحریک کو نقصان نہ پہنچے۔

ان دنوں وہ صرف بہن نہیں تھیں، بلکہ ایک ڈاکٹر، ایک مشیر، ایک دوست اور ایک جذبہ تھیں۔ جب ساری قوم قائد اعظم کی تقریروں سے حوصلہ پاتی تھی، قائد خود اپنی قوت فاطمہ جناح کی موجودگی سے پاتے تھے۔ بلکہ بارہا اس کا اظہار بھی ان الفاظ سے کرتے تھے کہ ’فاطمہ میری طاقت ہے‘۔

تحریکِ پاکستان کا ایک نظر انداز پہلو

بدقسمتی سے، تحریکِ پاکستان کی تاریخ میں اکثر فاطمہ جناح کے کردار کو محدود دکھایا گیا — حالانکہ وہ نہ ہوتیں تو قائداعظم کو شاید وہ قوت نہ ملتی جو انہوں نے آخری وقت تک دکھائی۔

ان کی خاموشی، ان کا وقار، ان کا مشن — سب کچھ قومی سرمایہ ہے جسے نئی نسل کو سکھانا ضروری ہے۔

ان کا کردار بتاتا ہے کہ تحریکیں صرف مرد نہیں چلاتے بلکہ قوموں کی تقدیر بدلنے میں ماں، بہن، بیٹی کا کردار فیصلہ کن ہوتا ہے۔

فاطمہ جناح صرف ماضی کا ایک باب نہیں، بلکہ مستقبل کا ایک راستہ ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں سکھاتی ہے کہ علم، حیا، اور خدمت کے ذریعے انقلاب آتا ہے۔ ایک عورت قوم کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ اور حق کے لیے لڑنے کی ہمت کبھی عمر، صنف یا حالات کی محتاج نہیں ہوتی۔

آج جب ہم پاکستان کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہر سو ہمیں  معاشرتی عدم مساوات، تعلیم کی کمی، خواتین پر بڑھتے ہوئے تشدد، اخلاقی زوال، اور جمہوری قدروں کی پامالی نظر آتی ہے۔ اور پھر بے اختیار ایک صدا دل میں گونجتی ہے۔

 ہمیں اس فاطمہ جناح کی ضرورت ہے جنہوں نے ہمیں سکھایا کہ حق گوئی ڈر سے بالاتر ہے۔ کردار، علم، اور نظریہ قوم کی اصل طاقت ہیں اور عورت کبھی کمزور نہیں، وہ قوم کی سب سے بڑی طاقت ہے کیونکہ قوموں کو طاقت مردوں کی تلواروں سے نہیں، عورت کی  تربیت سے ملتی ہے۔

فاطمہ جناح ایک جیتی جاگتی مثال تھیں کہ پردے میں رہتے ہوئے بھی عورت قیادت کر سکتی ہے، بول سکتی ہے، لکھ سکتی ہے، اور قوم کی سمت متعین کر سکتی ہے۔ آج پاکستان کی عورت تعلیم کے لیے لڑ رہی ہے ہراسانی سے بچنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے مساوی مواقع کے لیے آواز بلند کر رہی ہے لیکن اسے اعتماد، ہمت، اور نظریہ، یہ سب مادرِ ملت کی زندگی سے ملتا ہے. فاطمہ جناح نے کوئی نعرے نہیں لگائے، کوئی غصہ نہیں دکھایا، لیکن ان کا وقار، سنجیدگی، خلوص اور علم خود ایک نعرہ تھے۔

وہ عورتوں کو سکھاتی ہیں کہ

خاموشی کمزوری نہیں — حکمت ہو سکتی ہے۔

علم زیور نہیں — طاقت ہے۔

کردار لباس سے نہیں — سوچ سے بنتا ہے۔

اگر آج کی پاکستانی بیٹی، بہن، ماں، اور استاد فاطمہ جناح کو اپنا رہنما بنالے، تو یقین جانیے، ہم پھر سے ایک نیا پاکستان بنا سکتے ہیں اور ایک زندہ قوم بن سکتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp