حال ہی میں اداکار سدھارتھ شکلا اور شیفالی جریوالا کی مبینہ طور پر ہارٹ اٹیک سے موت کو سوشل میڈیا پر اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹس اور کورونا ویکسین سے منسوب کیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹس کو زیادہ مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ شیفالی جریوالا کو دل کا دورہ کیوں پڑا؟ پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آگئی
اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹس کیا ہیں اور اس کے انسانی صحت پر کیا منفی اثرات ہوسکتے ہیں، کس عمر کے افراد ان ٹریٹمنٹس کو لے سکتے ہیں؟ اور ان ٹریٹمنٹس کو لینے سے قبل کن چیزوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے جانتے ہیں ماہرین سے۔
ماہرین صحت کے مطابق اینٹی ایجنگ دراصل وہ طبی، غذائی یا کاسمیٹک طریقے ہیں جو عمر رسیدگی کی علامات کو کم کرنے یا روکنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
ان میں بوٹوکس، فلرز، ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی (HRT، کولاجن بوسٹ اور مختلف سپلیمنٹس شامل ہوتے ہیں۔ یہ ٹریٹمنٹس عموماً ان افراد کو تجویز کی جاتی ہیں جو 35 سے 50 سال کے درمیان ہوتے ہیں اور بڑھتی عمر کے اثرات جیسے جھریاں، جلد کی لچک میں کمی یا توانائی کی سطح میں کمی محسوس کرتے ہیں۔
ان میں سے سب سے زیادہ خطرناک کس ٹریٹمنٹ کو سمجھا جاتا ہے؟
دنیا بھر میں کئی گئی تحقیق کے مطابق ہارمون ریپلیسمنٹ تھراپی (HRT) کو سب سے زیادہ حساس اور ممکنہ طور پر خطرناک علاج قرار دیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھیے: کاسمیٹک سرجری کرانے والی اداکاراؤں کے بارے میں نیلم منیر نے کیا کہا؟
اینڈوکرائنالوجسٹ ڈاکٹر زائنہ جبین کہتی ہیں کہ ہارمون تھراپی بظاہر اسکن کو جواان کرنے میں مدد دیتی ہے لیکن اگر یہ بغیر مکمل لیبارٹری ٹیسٹ اور ماہر نگرانی کے لی جائے تو یہ دل کی بیماریاں، بریسٹ کینسر اور خون جمنے جیسے جان لیوا مسائل پیدا کر سکتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کئی خواتین خود سے یا غیر مستند کلینکس کے ذریعے HRT کا آغاز کر دیتی ہیں جو نہ صرف خطرناک بلکہ بعض اوقات ناقابل واپسی جسمانی تبدیلیوں کا سبب بھی بن سکتا ہے۔
ڈاکٹر زائنہ نے بتایا کہ مختلف تحقیق کے مطابق لمبے عرصے تک HRT لینے والی خواتین میں دل کا دورہ، اسٹروک اور بریسٹ کینسر کے خطرات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ بوٹوکس یا فلرز جیسے دیگر اینٹی ایجنگ طریقے بھی احتیاط طلب ہیں لیکن چونکہ HRT جسم کے اندرونی ہارمونی نظام کو براہ راست متاثر کرتی ہے، اس لیے اس کا استعمال صرف انتہائی ضرورت، مکمل میڈیکل چیک اپ اور رجسٹرڈ ماہر کی نگرانی میں ہی کیا جانا چاہیے۔
ڈاکٹر زائنہ نے کہا کہ ماہرین صحت اس بات پر متفق ہیں کہ اینٹی ایجنگ کے لیے سب سے محفوظ اور مؤثر طریقہ قدرتی زندگی اپنانا، متوازن غذا، باقاعدہ ورزش اور ذہنی سکون حاصل کرنا ہے جبکہ مصنوعی ہارمونز کو بطور فوری حل اپنانا صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر زائنہ کا کہنا تھا کہ یہ ٹریٹمنٹس ہر کسی کے لیے موزوں نہیں ہوتیں اور ان سے قبل مکمل میڈیکل ہسٹری اور دل کی صحت کا تجزیہ ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ خاص طور پر ہارمون ریپلیسمنٹ یا بوٹوکس جیسی پروسیجرز، اگر کسی ایسے شخص پر کی جائیں جس کو پہلے سے دل یا بلڈ پریشر کا مسئلہ ہو تو اس کے منفی اثرات ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹس کروانے کا بڑھتا رجحان
ان کا کہنا ہے کہ اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹس کو صرف ظاہری خوبصورتی کے لیے استعمال کرنا ایک خطرناک رجحان ہے اور اب پاکستان میں بھی اس طرح کے ٹریٹمنٹس کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ حتیٰ کہ پاکستان میں اتنے بڑے ٹریٹمنٹس بالکل بھی عام نہیں ہیں لیکن خود سے اس طرح کے سپلیمنٹس لینے کے رجحان میں کافی حد تک اضافہ ہواہے جو دل، گردوں اور جگر پر اثر ڈال سکتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کسی بھی قسم کے اینٹی ایجنگ علاج سے پہلے ماہرین کی رائے لینا، مکمل چیک اپ کرانا اور اس کی ضرورت کو پرکھنا نہایت ضروری ہے۔
ڈاکٹر زائنہ کہتی ہیں کہ صحت اور لمبی عمر کے لیے بہتر طرز زندگی، متوازن غذا، نیند اور باقاعدہ ورزش کو ہی سب سے مؤثر طریقہ سمجھا جاتا ہے جبکہ مصنوعی طریقوں پر انحصار صرف آخری اور احتیاطی آپشن کے طور پر اختیار کیا جانا چاہیے۔
ایستھیٹک فزیشن بینیش رضا نے اس حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ دنیا بھر میں اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹس کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے اور سنہ 2024 میں اس انڈسٹری کی مالیت تقریباً 73 ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے، جب کہ اندازہ ہے کہ سنہ 2033 تک یہ 121 ارب ڈالر سے تجاوز کر جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ صرف سال 2020 میں دنیا بھر میں تقریباً 14.4 ملین غیر سرجیکل اینٹی ایجنگ پروسیجرز کیے گئے جن میں سب سے زیادہ یعنی 6.2 ملین بوٹوکس کے کیسز تھے۔
بھارت میں بھی یہ رجحان بڑھ رہا ہے
بینیش رضا نے بتایا کہ بھارت میں بھی اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، خاص طور پر شہری نوجوانوں میں، جہاں 25 سے 45 سال کی عمر کے افراد جلد کی خوبصورتی برقرار رکھنے کے لیے بوٹوکس، فلرز، کولاجن تھراپی اور گلوٹاتھیون انجیکشن جیسے ٹریٹمنٹس کا سہارا لے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں: کیا جلد کو بوڑھا ہونے سے بچایا جا سکتا ہے؟
ان کا کہنا تھا ایشیا پیسیفک ریجن میں بھارت کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں اس مارکیٹ میں سالانہ تقریباً 19 فیصد کی رفتار سے ترقی ہو رہی ہے۔
پاکستان میں اگرچہ کوئی سرکاری ڈیٹا موجود نہیں مگر مقامی مارکیٹ اور سوشل میڈیا رپورٹوں کے مطابق اینٹی ایجنگ ٹریٹمنٹس جیسے مائیکرونڈلنگ، بوٹوکس اور گلوٹاتھیون انجیکشن کا استعمال خاص طور پر درمیانی آمدنی والے طبقات میں بڑھتا جا رہا ہے۔