جو ریاستیں قومی بیانیے کے محاذ پر ابہام میں رہتی ہیں وہاں قومی بیانیہ رفتہ رفتہ معدوم اور مفقود ہو جاتا ہے۔ جو ریاستیں بنیادی نظریات کے بارے میں کنفیوز رہتی ہیں وہاں ایک کنفیوز قوم پرورش پاتی ہے جو نظریے، سوچ اور فکر کی بنیادوں پر ہی دو رخی کا شکار ہوتی ہے۔ جو ریاست اپنے قومی مقاصد میں بہت واضح نہیں ہوتی وہاں منزل مقصود اس ریاست سے دور رہتی ہے۔ ان کے مقدر میں بس رستے کی کلفت رہتی ہے منزل تک ان کی دسترس نہیں ہوتی۔
ہم بھی کنفیوز ہیں اور بہت کنفیوز ہیں۔ اس میں ریاست کا کتنا قصور ہے؟ طالع آزماؤں کی کتنی کاوش ہے؟ ابن الوقتوں نے اس میں کیا کردار ادا کیا ہے؟ آستینوں کے سانپوں نے اس میں کیا زہر گھولا ہے؟ یہ الگ بحث ہے مگر اس کا نتیجہ سامنے ہے۔ ہم بہت سے لازمی محاذوں پر وہ سب کچھ نہ کہہ سکے، نہ کرسکے جو ریاست کی ذمہ داری بھی تھی اور ریاست کا مقصد بھی۔ یہاں ماضی کے زخموں کو کریدنا مقصود نہیں ہاں البتہ حال کو جانچ کر مستقبل کے احوال کو جانچنے کی خواہش ضرور ہے۔
بلوچستان آبادی کےا عتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ۔ اس کو پاکستان کےسر کا تاج ہوناچاہیے تھے۔ تحریک پاکستان میں اس کے جوانوں کی شمولیت کے قصے سنائے جانے چاہئیں تھے۔ قائد اعظم کی قیادت میں قاضی محمد عیسٰی نے جس طرح بلوچ جوانوں کو تحریک پاکستان کے لیے منظم کیا، اس کے قصیدے گانے چاہئیں تھے۔ اس کی زمیں میں موجود قدرتی وسائل سے پہلے بلوچستان اور پھر پورے ملک کو مستفید ہونا چاہیے تھا، اس کے رسم و رواج کا پرچار دنیا میں کرنا چاہیے تھا۔ اس کی مہمان نوازی کے قصے کتابوں میں بیان کرنے چاہئیں تھے مگر ان میں سے ہم کچھ نہیں کر پا رہے۔ ہماری جھولی میں صرف بم دھماکے، خود کش حملے، بیرونی ایماء پر شورشیں، اندرونی سازشیں، نااہلی، تقسیم در تقسیم کی بات کے سوا کچھ بھی نہیں۔ وہ بلوچ، جو امن پسند ہے، جو ریاست سے وفا کا داعی ہے ، جو محبت کے لیے بنا ہے، اس کے ارد گرد ان لوگوں کا راج ہے جو ریاست میں آگ لگا رہے ہیں ، جو سب کے سامنے ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہے ہیں، جو بیرونی فنڈنگ سے اس ملک کی زمیں کو لہو لہان کر رہے ہیں۔
کبھی یہ فتنہ انگیز بی ایل اے کے روپ میں ملتےہیں، کبھی ماہرنگ بلوچ کی زبان سے بولتے ہیں، کبھی بھارت کے ایما پر اس صوبے میں زہر گھولتے ہیں، کبھی دہشتگردوں کا تعلق افغانستان سے ہوتا ہے، کبھی دشمن ملک سے ان کے ڈانڈے ملتے ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری نظروں کے سامنے ہو رہا ہے۔ ان زہریلے پودوں کی آبیاری ہمارے ہاں ہی کی گئی۔ ساری غلطی یہ ہے کہ ہم نے ان دشنموں کو اس سر زمیں پر پنپنے دیا۔ اب جو کچھ ہو رہا ہے اس میں ہمارا ریاستی ابہام بھی قصور وار ہے، ہمارا کنفیوز بیانیہ بھی ذمہ دار ہے۔
جو کچھ بی ایل اے جیسی تنظیم اس ملک میں کر رہی ہے ایک لمحے کو سوچیے کہ اس طرح کی کوئی تنظیم امریکا میں یا کسی دوسرے ترقی یافتہ ملک میں کھلم کھلا دہشتگردی کر رہی ہوتی۔ تو وہ ریاستیں اس طرح کی تنظیموں سے کس طرح نمٹتیں؟ کیا وہ بھی اتنے خود کش حملوں کے بعد خاموش رہتیں؟ کیا وہ ریاستیں بھی اپنی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کی اجازت دیتیں؟ یا پھر ان فتنہ انگیزوں کا بیانیےکے محاذ پر طاقتور ہونے کا انتظار کرتیں۔ ان کے مضبوط ہونے کی منتظر رہتیں۔
ہمیں اصل دھوکہ انسانی حقوق کے نام پر دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کسی بھی ملک کے قوانین کے سر کا تاج ہوتے ہیں۔ انہی سے اس ملک میں انسانی جان کی اہمیت اور حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔ انہی سے اس ملک کے شہریوں کی قدر و منزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے نام پر ظلم کرنے والوں نے ہمیشہ خود انسانی حقوق کو پامال کیا۔ انہی حقوق کو پاؤں تلے روندا، انہی انسانی حقوق کی آڑ میں خود کش حملے کیے۔ انہی انسانی حقوق کا نام لے کر سارے صوبے کو لہو رنگ کر دیا۔
آپ کو حیرت نہیں ہوتی کہ جب ڈاکٹر ماہرنگ بلوچ انسانی حقوق کا نعرہ لگاتی ہیں۔ جب بلوچوں کا نام لیتی ہیں اور پھر جب غیر بلوچوں کے قتل پر خاموش رہتی ہیں، بسوں سے شناختی کارڈ دیکھ کر لوگوں کو چن چن کر مار دینے کے واقعات پر ان کا ٹوئٹر خاموش ہو جاتا ہے۔ جب جعفر ایکسپریس جیسے خونچکاں واقعات ہوتے ہیں اور ان کی جانب سے نہ تعزیت کا کوئی لفظ ادا کیا جاتا ہے نہ ان واقعات کے پیچھے چھپے لوگوں کی حمایت پر معذرت کا کوئی اظہار ملتا ہے تو کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وہ انسانی حقوق کی نہیں غیر انسانی حقوق کی علمبردار ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وہ بلوچوں کے حقوق کا نام لے کر بلوچوں کو بدنام کر رہی ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وہ بی ایل اے جیسی تنظیموں کی پشت پناہی کر رہی ہیں؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ وہ ریاست سے نفرت کا پرچار کر رہی ہیں، اس ریاست سے جس کے خمیر سے انہوں نے پرورش پائی، جس ریاست کے وظیفے سے انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ جس ریاست کے جھنڈے تلے انہوں نے ملک کی سلامتی اور وفاداری کے گیت گائے۔
کچھ عرصہ پہلے فیلڈ مارشل جناب عاصم منیر نے ایک موقع پر کہا تھا کہ یہ 1500 لوگ ہم سے بلوچستان لے نہیں سکتے۔ یہ بالکل صائب ہے۔ یہ دہشتگرد اور ان کے پروردہ بہت کم تعداد میں ہیں۔ زیادہ تر بلوچ نہ علیحدگی کی بات کرتے ہیں نہ تشدد کو شعار بناتے ہیں۔ مگر میرا سوال صرف اتنا ہے کہ جب فیلڈ مارشل کا عزم اتنا واضح ہے، جب دہشتگرد ہمارے سامنے ہیں، جب نفرت کے پیرو کاروں کو ہم جانتے ہیں، جب ہمیں پتہ ہے کہ دہشتگردی کی فنڈنگ بھارت سے ہو رہی ہے، تو پھر کوئی فیصلہ کیوں نہیں ہو رہا؟ کوئی حتمی اعلان کیوں نہیں ہو رہا ؟ ریاست کس ابہام کا شکار ہے؟ کس سانحےکا انتظار ہورہا ہے؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔