سپریم کورٹ کی جانب سے مخصوص نشستیں اپوزیشن کو ملنے کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن کی عددی طاقت میں اضافہ ہوا ہے، جس نے صوبے میں حکومت کی تبدیلی کی قیاس آرائیوں کو تقویت دی ہے۔ ایسے میں وزیرِ اعظم کے مشیر برائے داخلہ اور سابق وزیرِ اعلیٰ پرویز خٹک بھی دوبارہ سرگرم دکھائی دے رہے ہیں۔
پرویز خٹک ان دنوں اپنی ہمشیرہ کے انتقال کے باعث نوشہرہ کے علاقے مانکی شریف میں موجود ہیں، جہاں مختلف سیاسی و سماجی شخصیات تعزیت کے لیے آ رہی ہیں۔ ان کے قریبی ذرائع کے مطابق، پی ٹی آئی کے کئی سابق رفقا بھی ان سے ملاقات کر چکے ہیں، جس سے سیاسی مشاورت کا تاثر ابھر رہا ہے۔
اپوزیشن کی جوڑ توڑ اور گورنر کا کردار
مخصوص نشستوں کی تقسیم کے بعد خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن اراکین کی تعداد 54 ہو جائے گی، تاہم سادہ اکثریت کے لیے انہیں مزید کم از کم 20 اراکین یا ان کی حمایت درکار ہے۔ اس ہدف کے حصول کے لیے اپوزیشن جماعتیں متحرک ہیں اور نئے اراکین کے حلف سے پہلے ہی حکومت کی تبدیلی کی تیاریوں میں مصروف ہیں۔
گورنر خیبر پختونخوا فیصل کریم کنڈی جو پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں، وزیرِ اعظم سے حالیہ ملاقات میں اپوزیشن کی حکمت عملی اور آئندہ کی صورت حال پر تبادلہ خیال کر چکے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ گورنر کو اپوزیشن جماعتوں کے درمیان روابط بڑھانے کا ٹاسک دیا گیا ہے، اور وہ مولانا فضل الرحمان سے بھی ملاقات کر چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: فضل الرحمان اپنی جماعت میں تبدیلی لے کر آئیں: گنڈاپور کو ہٹانے کی تجویز پر صوبائی حکومت سیخ پا
اسی سلسلے میں گورنر مانکی شریف پہنچے، جہاں انہوں نے پرویز خٹک سے ان کی ہمشیرہ کے انتقال پر تعزیت کی اور ساتھ ہی ممکنہ سیاسی تعاون پر بھی بات چیت کی۔
پرویز خٹک سے اپوزیشن کی امیدیں
ذرائع کے مطابق، پرویز خٹک خیبر پختونخوا کی سیاست میں ایک بار پھر فعال ہو رہے ہیں۔ ان کی مولانا فضل الرحمان سے ملاقات میں سینیٹ انتخابات اور وزیرِاعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف ممکنہ تحریکِ عدم اعتماد پر گفتگو ہوئی۔ اطلاعات ہیں کہ پرویز خٹک اب بھی پی ٹی آئی کے بعض موجودہ اراکینِ اسمبلی سے رابطے میں ہیں۔
اپوزیشن ان سے توقع رکھتی ہے کہ وہ اپنی سیاسی اثرپذیری استعمال کرتے ہوئے تحریکِ عدم اعتماد میں ان کا ساتھ دیں۔ ذرائع کے مطابق، مولانا فضل الرحمان چاہتے ہیں کہ پرویز خٹک جے یو آئی میں باضابطہ شمولیت اختیار کریں، خاص طور پر اس پس منظر میں کہ ان کے بھائی لیاقت خٹک پہلے ہی جے یو آئی کا حصہ بن چکے ہیں اور دونوں بھائیوں کے درمیان اختلافات بھی ختم ہو چکے ہیں۔
’پرویز خٹک کا سیاسی وقت گزر چکا ہے‘
نوشہرہ سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی شہاب الرحمان کا کہنا ہے کہ 2024 کے عام انتخابات میں ناکامی کے بعد پرویز خٹک کی سیاسی اہمیت کم ہو چکی ہے۔ ان کے مطابق، پرویز خٹک جوڑ توڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، مگر اس وقت ان کے پاس نہ کوئی سیاسی عہدہ ہے اور نہ ہی عددی طاقت۔
شہاب کا کہنا ہے کہ انہیں وفاقی کابینہ میں شامل کرکے پی ٹی آئی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی ذمہ داری دی گئی تھی، لیکن وہ اس میں زیادہ دلچسپی لیتے دکھائی نہیں دیے۔ اب اپوزیشن انہیں دوبارہ متحرک کرنے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن اس کے کامیاب ہونے کی کوئی ضمانت نہیں۔
مزید پڑھیں: 90 روز میں عمران خان کو رہا کرو ورنہ پھر تم نہیں یا ہم نہیں، علی امین گنڈاپور کا حکومت کو الٹی میٹم
9 مئی کے بعد سیاست کا رخ بدل گیا
نو مئی 2023 کے واقعات تک پرویز خٹک، عمران خان کے قریبی ساتھی اور پی ٹی آئی خیبر پختونخوا کے صدر تھے، تاہم بعد ازاں انہوں نے پارٹی سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے ’پی ٹی آئی پارلیمنٹرینز‘ کے نام سے نیا سیاسی گروپ بنایا۔ 2024 کے انتخابات میں ناکامی کے بعد وہ وقتی طور پر سیاست سے کنارہ کش ہو گئے، لیکن مارچ 2025 میں وفاقی کابینہ میں بطور مشیر برائے داخلہ واپسی ہوئی اور اب وہ دوبارہ متحرک دکھائی دیتے ہیں۔
پرویز خٹک کا سیاسی سفر
پرویز خٹک 73 برس کے ہیں اور مانکی شریف، نوشہرہ میں پیدا ہوئے۔ 1983 میں ضلع کونسل کے رکن کی حیثیت سے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک رہے اور صوبائی وزیر آبپاشی و صنعت کے عہدوں پر فائز رہے۔
2013 میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر خیبر پختونخوا اسمبلی سے رکن منتخب ہوئے اور صوبے کے وزیرِ اعلیٰ بنے۔ 2018 میں قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو کر وزیرِ دفاع کے طور پر خدمات انجام دیں۔ انہیں عمران خان کا قریبی ساتھی اور پی ٹی آئی کے طاقتور رہنما کے طور پر جانا جاتا رہا ہے۔