بھارت: کشمیر کے یوم شہدا پر وزیر اعلیٰ بھی مقید

پیر 14 جولائی 2025
icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

مقبوضہ کشمیر میں حکام نے یوم شہدا کے موقعے پر وزیر اعلی عمر عبداللہ سمیت تمام سرکردہ رہنماؤں کو گھر میں ہی نظر بند کر دیا۔ تاہم اطلاعات کے مطابق آج وہ پولیس کو چکمہ دے کر قبرستان شہدا تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں: یوم تکبیر: مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کے حق میں پوسٹرز آویزاں، فیلڈ مارشل عاصم منیر کی تصویر بھی چسپاں

مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ نے اتوار کے روز گھر کے اندر اپنی نظربندی کو غیر منتخب لوگوں کا ظلم قرار دیا ہے۔

بھارتی خبر رساں اداروں کی اطلاعات کے مطابق حکام نے اتوار کے روز کشمیر کی موجودہ حکومت اور اپوزیشن سمیت تقریباﹰ تمام سرکردہ رہنماؤں کو ان کے گھروں میں ہی نظر بند کر دیا تھا تاکہ انہیں یوم شہدا کے موقع پر خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے شہدا کے قبرستان تک جانے سے روکا جا سکے۔

تاہم پیر کے روز پولیس کے ساتھ ہاتھا پائی کے بعد عمر عبداللہ قبرستان شہدا تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور دیوار چھلانگ کر شہداء کو خراج تحسین پیش کیا۔

مقبوضہ کشمیر میں ہر سال 13 جولائی کو شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یوم شہدا منایا جاتا ہے اور کشمیری رہنما شہیدوں کے قبرستان جا کر انہیں خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ یہ دن کشمیر میں  ڈوگرا راجہ کے خلاف پہلی مرتبہ سنہ 1931 میں آواز اٹھانے والے شہیدوں کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ  کی بے بسی

بھارت میں کسی بھی ریاست کے وزیر اعلیٰ کو کم از کم اتنی آزادی ضرور حاصل ہوتی ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ضروری کاموں کے لیے آ جا سکے۔ تاہم بھارت کے زیر انتظام کشمیر کا حال ہے کہ بھارتی حکومت کی ایما پر وزیر اعلی کو بھی معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا جا تا ہے۔

جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کی انتظامیہ کا نام لیے بغیر عمر عبداللہ نے ایکس پر اپنی ایک اور پوسٹ میں کہا کہ ’غیر منتخب حکومت نے منتخب حکومت کو مقفل کر کے رکھ دیا ہے‘۔

اتوار کے روز وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی حکومت کے کئی وزرا، پارٹی کے ارکان اسمبلی، حکمران جماعت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے تمام سرکردہ رہنماؤں کو یوم شہداء کشمیر منانے سے روکنے کے لیے یا توگھروں میں نظر بند کر دیا گیا یا پھر انہیں حراست میں لے لیا گیا تھا۔

مزید پڑھیے: مقبوضہ کشمیر کو آزاد کرانے کا یہ بہترین موقع ہے، صدر ایکس سروس مین سوسائٹی بریگیڈیئر زرین

مقبوضہ کشمیر اب بھی مرکز کے زیر انتظام ایک علاقہ ہے جہاں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو مودی حکومت نے ایک بڑی کامیابی قرار دیا تاہم وزیر اعلی کے پاس اختیارات برائے نام ہیں اور دہلی کے ماتحت گورنر کی انتظامیہ ہی تمام اہم فیصلے کرتی ہے۔

 اسی انتظامیہ نے اتوار کے روز سری نگر کے کئی حصوں میں پابندیاں عائد کر دی تھیں اور خبردار کیا کہ جو بھی شہدا کے قبرستان کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے گا اس کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

پابندیوں کی مذمت

اتوار کے روز جب صبح سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ سمیت سینیئر کشمیری رہنما سو کر اٹھے تو انہوں نے اپنے آپ کو گھروں میں نظربند پایا۔

عمر عبداللہ نے ان پابندیوں اور گھروں میں نظربندی کی شدید الفاظ میں مذمت۔

جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے بھی اطلاع دی کہ انہیں گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ انہوں نے بھی ایکس پر اپنے پیغام میں اس کی مذمت کی۔

کشمیر میں 13 جولائی ایک سرکاری چھٹی ہوا کرتی تھی اور ہند نواز سیاسی جماعتوں کے رہنما اور علیحدگی پسند رہنما بھی اس دن مزار شہدا پر فاتحہ خوانی کے لیے جاتے تھے۔ تاہم مودی حکومت کی انتظامیہ نے سنہ 2021 میں اس تعطیل کو ختم کر دیا تھا۔

اسی لیے حکمران نیشنل کانفرنس نے لیفٹیننٹ گورنر کو خط لکھ کر سنہ 1931 میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں 13 جولائی کو عام تعطیل بحال کرنے پر زور دیا تھا۔

یوم شہدا کیا ہے؟

خیال رہے کہ مسلم اکثریتی علاقے کشمیر میں ہندو ڈوگرا راجہ کے مبینہ مسلم دشمن اقدامات کے خلاف پہلی بار 13 جولائی سنہ 1931 میں آواز اٹھائی گئی تھی۔ راجہ نے کشمیری مسلم مظاہرین پر فائرنگ کا حکم دیا جس میں 22 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ اسی وقت سے کشمیری ان لوگوں کی یاد میں یوم شہدا کا اہتمام کرتے رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر مظالم، نیو یارک ٹائمز نے پردہ فاش کردیا

سنہ 1948 میں جب کشمیری رہنما شیخ عبداللہ نے اس دن کو سرکاری تعطیل قرار دیا تو یوم شہدا کی تقریب حکومتی سطح پر بھی منائی جانے لگی۔ لیکن مودی حکومت نے کشمیر کی اس چھٹی کو منسوخ کر دیا اور اس کی جگہ 26 اکتوبر کو سرکاری تعطیل کا اعلان کیا جس دن ڈوگرا راجہ نے بھارت سے الحاق کیا تھا۔ جموں خطے میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے حامی ہندو گروپ یوم شہدا کی مخالفت کرتے تھے اور اس دن یوم سیاہ مناتے تھے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp