شرم کے ہاتھوں انصاف کا قتل

ہفتہ 19 جولائی 2025
author image

عبید الرحمان عباسی

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp

بچہ بازی (پیڈوفیلیا) صرف جرم نہیں، زخم ہے۔ ایسا زخم جو نہ صرف جسم کو چیرتا ہے بلکہ روح کو بھی ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیتا ہے۔

پاکستان میں پیڈوفیلیا (بچہ بازی) یعنی بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اب ایک ایسا ناسور بن چکا ہے جسے ریاستی غفلت، قانونی کمزوری اور معاشرتی بےحسی نے مزید خطرناک بنا دیا ہے۔

مظفرگڑھ کا واقعہ: عالمی نیٹ ورک کی جڑیں پاکستان میں؟

2024 میں پنجاب پولیس نے مظفرگڑھ میں جرمنی سے منسلک ایک بین الاقوامی پیڈوفائل نیٹ ورک کو بے نقاب کیا۔ یہ گروہ پاکستانی بچوں کے ساتھ زیادتی کی ویڈیوز بنا کر بیرون ملک ڈارک ویب پر بیچتا تھا۔

تحقیقات سے انکشاف ہوا کہ یہ نیٹ ورک پاکستان، بنگلہ دیش، فلپائن اور نیپال جیسے ممالک میں سرگرم تھا۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس: خوفناک عالمی تصویر

  1. 1. Child Sexual Exploitation Report 2023 – اقوام متحدہ

دنیا میں سالانہ 1 کروڑ 20 لاکھ بچے جنسی استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں پاکستان، بھارت، نائیجیریا، برازیل شامل ہیں۔ ایشیا اور افریقہ کو ’ہائی رسک زونز‘ قرار دیا گیا۔

  1. 2. UNODC رپورٹ 2022

بچوں کی فحش ویڈیوز کی بڑی مقدار جنوبی ایشیائی ممالک سے آتی ہے۔

پاکستان میں غیر رجسٹرڈ مدارس، یتیم خانے اور پناہ گاہیں ایسے جرائم کے مراکز بن چکے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں صورت حال

امریکا: FBI  کے مطابق روزانہ 5000 سے زائد چائلڈ پورنوگرافی یا زیادتی کے کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔

برطانیہ: 2023 میں 30,000 سے زائد پیڈوفیلیا کیسز، سائبر کرائم یونٹ متحرک۔

جرمنی: 2022 میں 150,000 سے زائد بچوں سے متعلق جنسی استحصال کے کیسز رپورٹ ہوئے۔

پاکستان میں صورت حال: تاریکی میں ڈوبا ہوا بچپن

’ساحل‘ تنظیم کے مطابق: 2023 میں 4300 سے زائد بچوں سے زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ روزانہ اوسطاً 12 بچے درندگی کا شکار بنتے ہیں۔

سب سے زیادہ واقعات پنجاب، سندھ اور خیبرپختونخوا کے دیہی علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔

یہ صرف رجسٹرڈ کیسز ہیں، اصل تعداد کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ والدین اور victim ، خوف اور شرم کی وجہ سے معاملات کو دبا دیتے ہیں۔

پیڈوفیلیا: نفسیاتی اور سائنسی پہلو

یہ ایک ذہنی بیماری ہے، مگر جب یہ عملی شکل اختیار کرے تو خطرناک مجرمانہ فعل بن جاتی ہے۔ اسی لیے بہت سے مغربی ممالک میں مجرموں پر کیمیکل کیسٹریشن، تھراپی اور عمر قید جیسے اقدامات کیے جاتے ہیں۔ جبکہ شہنشاہیت اور dictatorship والے ممالک موت کی سزا دیتے ہیں۔

متاثرہ بچوں پر اثرات: عمر بھر کا زخم

  1. 1. ذہنی صدمہ (Trauma)
  2. 2. اعتماد کی شدید کمی
  3. 3. خودکشی کا رجحان
  4. 4. تعلیم سے نفرت
  5. 5. جنسی شناخت میں الجھن
  6. 6. معاشرتی تنہائی

اکثر بچے باقی زندگی خاموش اذیت میں گزارتے ہیں، جبکہ معاشرہ ان کی چیخیں سننے سے قاصر رہتا ہے۔

قانون کہاں کھڑا ہے؟

اگرچہ پاکستان میں ’زینب الرٹ بل‘PPC کی دفعات 376، 377 اور 292 موجود ہیں، مگر پولیس تفتیش کمزور، عدالتی نظام سست، مجرم اکثر بااثر، متاثرہ بچوں کو بار بار عدالتوں میں پیش ہونا پڑتا ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ پارلیمنٹ تاحال پیڈوفیلیا پر سزائے موت یا کیسٹریشن کا قانون منظور نہیں کر سکی۔ کیونکہ اس میں بہت سے پردہ نشینوں کا نام آتا ہے۔

دنیا میں سزائیں — پاکستان میں نرمی؟

ایران میں سزائے موت، سعودی عرب میں سرِعام سزائیں، امریکا میں عمر قید + کیسٹریشن، جرمنی میں نفسیاتی بندش + نظربندی، پاکستان میں ضمانت یا کمزور سزا۔

آن لائن پیڈوفیلیا: نیا شکار، نئی دنیا

بچے اب صرف گلی کوچوں میں نہیں، انٹرنیٹ پر بھی غیر محفوظ ہیں۔

یوٹیوب، فیس بک، انسٹاگرام اور آن لائن گیمز جیسے پلیٹ فارمز پر بچے آسانی سے شکاریوں کا نشانہ بن رہے ہیں۔

کئی پاکستانی کیسز میں بچوں کو ’آن لائن گروومنگ‘ کے ذریعے ورغلا کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا۔

ڈیجیٹل دنیا میں حفاظتی قوانین کا شدید فقدان ہے۔

حل: اب وقت ہے فیصلہ کن اقدام کا،

  1. 1. پارلیمنٹ فوری طور پر سزائے موت یا کیمیکل کیسٹریشن کا قانون منظور کرے۔
  2. 2. چائلڈ پروٹیکشن ایجوکیشن کو اسکول نصاب کا حصہ بنایا جائے۔
  3. 3. سائبر کرائم یونٹس کو جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جائے۔
  4. 4. عدالتوں اور پولیس کو چائلڈ سینسٹیو تربیت دی جائے۔
  5. 5. اقوام متحدہ اور انٹرپول سے اشتراک کر کے عالمی نیٹ ورکس کی گرفت کی جائے۔

آخری سوال: کب تک؟

کیا ہم انتظار کریں گے کہ ایک اور زینب، فرحان یا علی اس ظلم کا شکار ہو؟

یا اب خاموشی توڑیں گے؟

یہ صرف جرم نہیں، انسانیت پر حملہ ہے۔ اور اس حملے پر خاموشی اختیار کرنا بھی جرم ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مصنف سابق سینئر ایڈیشنل ڈائریکٹر لاء پاکستان سول ایوی ایشن اتھارٹی اور اسلام آباد میں مقیم ایوی ایشن اینڈ انٹرنیشنل لاء کنسلٹنٹ ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

icon-facebook icon-twitter icon-whatsapp